google-site-verification=aZNfMycu8K7oF6lNUgjpjoa8ZAyM0qfHriwatL8flQ4
i love muhammad

حیدرآباد: شمالی ہندوستان کے شہر کانپور میں ‘آئی لو محمد’ (I Love Muhammad) کے پوسٹرز اور بورڈز لگانے پر کچھ لوگوں کی گرفتاریوں کے بعد حیدرآباد میں بھی اس کے خلاف شدید احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ اس واقعے نے ملک بھر میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ آخر پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ سے محبت کا اظہار ایک جرم کیسے ہو سکتا ہے؟ اس معاملے نے خاص طور پر سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا کر دیا ہے، جہاں عوام اور مختلف تنظیمیں ان گرفتاریوں کی شدید مذمت کر رہی ہیں اور اسے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو دبانے کی کوشش قرار دے رہی ہیں۔

کانپور میں کیا ہوا؟

اطلاعات کے مطابق، پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی یومِ پیدائش کے موقع پر، جسے عید میلاد النبی بھی کہا جاتا ہے، کانپور کے مختلف علاقوں میں ‘آئی لو محمد’ کے پوسٹرز اور بورڈز لگائے گئے تھے۔ یہ پوسٹرز گزشتہ کئی سالوں سے مختلف مذہبی تہواروں اور جلوسوں کے دوران استعمال ہوتے رہے ہیں اور عام طور پر اسے ایک عام مذہبی اظہار سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، اس سال ان پوسٹرز کو لے کر ایک نیا تنازع کھڑا ہو گیا جب مقامی پولیس نے ان پوسٹرز کو ہٹانے کا حکم دیا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ یہ ایک ‘نئی روایت’ ہے اور اس سے فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھنے کا خطرہ ہے۔ اس حکم پر عمل نہ کرنے پر کچھ نوجوانوں کو گرفتار بھی کیا گیا، جس نے پورے ملک کے مسلمانوں کو غصے میں مبتلا کر دیا۔ پولیس نے مبینہ طور پر امن و امان میں خلل ڈالنے اور فرقہ وارانہ جذبات بھڑکانے کی دفعات کے تحت مقدمات بھی درج کیے ہیں۔

حیدرآباد میں احتجاج کی لہر

کانپور میں ہونے والی گرفتاریوں کی خبریں جیسے ہی حیدرآباد پہنچیں، شہر میں فوری طور پر احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ مختلف مسلم تنظیموں، مذہبی رہنماؤں اور نوجوانوں نے سڑکوں پر آ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ حیدرآباد میں مختلف مقامات پر احتجاجی مارچ اور دھرنے دیے گئے، جس میں مظاہرین نے کانپور پولیس کے اس اقدام کی مذمت کی۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ اس طرح کی کارروائیاں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی ایک دانستہ کوشش ہیں۔

اس احتجاج میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اور حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ، اسد الدین اویسی نے بھی شدید ردعمل ظاہر کیا۔ انہوں نے کانپور پولیس کے موقف کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے سوال کیا کہ پیغمبر اسلام سے محبت کا اظہار ایک ‘نئی روایت’ کیسے ہو سکتا ہے جب کہ یہ عقیدہ اسلام کی بنیاد ہے۔ اویسی نے اسے بی جے پی حکومت کی اس پالیسی کا حصہ قرار دیا جو مسلمانوں کو ملک میں ‘دوسرے درجے کا شہری’ محسوس کرانے کی کوشش کر رہی ہے۔

اس احتجاج کے دوران کئی مقامات پر سڑکیں بلاک ہو گئیں، اور پولیس کو صورتحال پر قابو پانے کے لیے اضافی نفری تعینات کرنی پڑی۔ مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر ‘آئی لو محمد’ کے نعرے درج تھے، اور وہ حکومت مخالف نعرے لگا رہے تھے۔ انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ کانپور میں گرفتار کیے گئے تمام نوجوانوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور ذمہ دار پولیس افسران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

سیاسی اور سماجی ردعمل

یہ معاملہ صرف سڑکوں تک محدود نہیں رہا بلکہ اس پر سیاسی حلقوں میں بھی گرما گرم بحث شروع ہو گئی ہے۔ کانگریس، سماج وادی پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے بھی اس واقعے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ حکومت کی ‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس’ کی پالیسی کے خلاف ہے۔ سماجی کارکنان اور انسانی حقوق کے علمبرداروں نے بھی اس معاملے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ملک میں مذہبی آزادی پر بڑھتی ہوئی پابندیوں کی ایک واضح مثال ہے۔

ایک طرف جہاں یہ احتجاج مسلمانوں کے مذہبی جذبات کا اظہار ہے، وہیں دوسری طرف بعض حلقوں نے اسے ملک کے امن و امان کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ اسد الدین اویسی نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی شخص پیار و محبت کا اظہار کرتا ہے تو اسے فرقہ وارانہ کشیدگی سے جوڑنا قطعی طور پر غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کی حکومت ہمیشہ ایسے مسائل پیدا کرتی ہے تاکہ وہ انتخابات کے دوران ووٹوں کو پولرائز کر سکے۔

اس احتجاج کی خبریں بین الاقوامی سطح پر بھی پھیل گئی ہیں، اور کچھ عالمی میڈیا نے بھی اس پر رپورٹنگ کی ہے۔ یہ واقعہ ہندوستان کی داخلی صورتحال اور مذہبی رواداری پر سوالات کھڑے کر رہا ہے۔

مستقبل کی راہ

حیدرآباد اور ملک کے دیگر حصوں میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ مسلمانوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کانپور میں گرفتار کیے گئے بے قصور نوجوانوں کو فوری رہا کرے اور انہیں انصاف فراہم کرے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ملک میں مذہبی آزادی کو یقینی بنایا جائے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے ناخوشگوار واقعات پیش نہ آئیں۔ اس وقت یہ معاملہ نہ صرف کانپور یا حیدرآباد کا ہے بلکہ یہ پورے ملک میں مذہبی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کے اصولوں کا امتحان ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں اس صورتحال سے کیسے نمٹتی ہیں اور کیا وہ مسلمانوں کے خدشات کو دور کرنے کے لیے کوئی قدم اٹھاتی ہیں یا نہیں۔

اس خبر پر آپ کے مزید کیا خیالات ہیں؟ کیا آپ اس پر کوئی اور معلومات حاصل کرنا چاہیں گے؟

صفراوادی‘: انڈونیشیا کا وہ ’مقدس غار جہاں مکہ تک پہنچانے والی خفیہ سرنگ‘ موجود ہے جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے کیا دیکھا؟ سی ڈی اے ہسپتال میں لفٹ خراب ٹریفک پولیس جدید طریقہ واردات