
لندن: آج کے دن ایک تاریخی اور اہم فیصلہ سامنے آیا ہے جب برطانیہ کی حکومت نے باضابطہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس اقدام نے عالمی سیاست میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے اور اس پر نہ صرف عالمی سطح پر بلکہ خود برطانیہ کے اندر بھی شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ اس فیصلے نے برطانیہ کو ان چند مغربی ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا ہے جنہوں نے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کیا ہے، اور یہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکہ اور اسرائیل مسلسل اس اقدام کی مخالفت کر رہے ہیں۔
فیصلے کا پس منظر:
گزشتہ کئی مہینوں سے برطانیہ میں اس مسئلے پر شدید بحث جاری تھی کہ آیا فلسطین کی ریاست کو تسلیم کیا جائے یا نہیں۔ اس مسئلے نے برطانوی سیاست میں گہری تقسیم پیدا کر دی تھی۔ حکمران جماعت کے کچھ اراکین اس کے حق میں تھے، جبکہ دیگر اراکین اور اپوزیشن کے کچھ حلقے اس کے خلاف تھے۔ وزیر اعظم کی کابینہ میں بھی اس فیصلے پر اتفاق رائے نہیں تھا، جس سے اس کی اہمیت اور پیچیدگی میں مزید اضافہ ہوا۔
حالیہ غزہ جنگ کے بعد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے مطالبے میں مزید تیزی آئی ہے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور دیگر عالمی فورمز پر بھی اس مسئلے پر بات چیت جاری تھی۔ خاص طور پر اسپین، آئرلینڈ اور ناروے جیسے ممالک کے حالیہ فیصلوں نے برطانیہ پر بھی دباؤ بڑھا دیا تھا کہ وہ اس جانب کوئی قدم اٹھائے۔ ان ممالک کا کہنا تھا کہ دو ریاستی حل، جس کی عالمی برادری حامی ہے، صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب فلسطین کو ایک آزاد اور خودمختار ریاست تسلیم کیا جائے۔
برطانیہ کا یہ فیصلہ اندرونی اور بیرونی دباؤ کا نتیجہ ہے۔ ایک طرف، عوامی رائے اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا دباؤ تھا جو فلسطینیوں کے حقوق کا مطالبہ کر رہی تھیں، اور دوسری طرف، عالمی سطح پر برطانیہ کو اپنی خارجہ پالیسی میں ایک آزادانہ اور فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت تھی۔ کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس فیصلے سے برطانیہ مشرق وسطیٰ میں اپنا ایک نیا کردار متعین کرنا چاہتا ہے، جو امریکہ کی پالیسیوں سے قدرے مختلف ہو۔
امریکہ اور اسرائیلی دباؤ کی مزاحمت:
برطانیہ کے اس فیصلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس نے اپنے دیرینہ اتحادی امریکہ اور اسرائیل کے شدید دباؤ کے باوجود یہ قدم اٹھایا۔ رپورٹس کے مطابق، امریکی حکومت نے برطانیہ کو اس فیصلے سے باز رکھنے کے لیے کئی مرتبہ سفارتی کوششیں کیں۔ امریکہ کا مؤقف ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا صرف اسرائیل اور فلسطین کے درمیان براہ راست مذاکرات کے ذریعے ہونا چاہیے، اور کسی بھی یکطرفہ فیصلے سے امن مذاکرات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اسرائیل نے اس فیصلے کو “سنگین غلطی” قرار دیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے ایک سخت بیان میں کہا کہ برطانیہ کا یہ فیصلہ “سخت مایوس کن” ہے اور یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک رکاوٹ ثابت ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ فیصلہ حماس کو مضبوط کرے گا اور امن کے امکانات کو ختم کر دے گا۔ اسرائیل کے اس ردعمل کو دیکھتے ہوئے یہ واضح ہے کہ اس فیصلے سے دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات میں سرد مہری آ سکتی ہے۔
اسرائیلی یرغمالیوں کے خاندانوں کا ردعمل:
اس فیصلے پر سب سے زیادہ جذباتی اور شدید ردعمل اسرائیلی یرغمالیوں کے خاندانوں کی جانب سے آیا ہے۔ ایک بیان میں، یرغمالیوں کے ایک خاندان کے نمائندے نے کہا کہ یہ فیصلہ اس وقت تک نہیں کیا جانا چاہیے جب تک کہ ان کے پیاروں کو حماس کی قید سے رہا نہیں کرایا جاتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے حماس کو ایک طرح کا انعام ملے گا، جو کہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ان کی کوششوں کو کمزور کر دے گا۔
یرغمالیوں کے خاندانوں نے برطانیہ کی حکومت سے براہ راست اپیل کی تھی کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے اور ان کے درد کو سمجھے۔ ان کی اس جذباتی اپیل کے باوجود برطانوی حکومت نے اس فیصلے پر قائم رہنے کا عزم ظاہر کیا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس فیصلے کے پیچھے گہرے سیاسی اور اسٹریٹجک عوامل کارفرما تھے۔
فلسطین اور عرب ممالک کا ردعمل:
فلسطینی اتھارٹی نے برطانیہ کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ فلسطینی صدر نے ایک بیان میں کہا کہ یہ فیصلہ بین الاقوامی قانون اور انصاف کی فتح ہے۔ انہوں نے اس فیصلے کو “بہادری کا مظاہرہ” قرار دیا اور کہا کہ اس سے امن کی کوششوں کو تقویت ملے گی۔ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ ایک آزاد ریاست کو تسلیم کرنا دو ریاستی حل کی بنیاد ہے اور یہ امن کے حصول کے لیے ایک ناگزیر قدم ہے۔
عرب ممالک نے بھی اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ سعودی عرب، مصر، اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک نے ایک مشترکہ بیان جاری کر کے اس فیصلے کی حمایت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ نہ صرف فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کرتا ہے بلکہ یہ مشرق وسطیٰ میں امن اور استحکام کے لیے بھی ایک اہم قدم ہے۔ یہ بیان اس بات کا اشارہ ہے کہ عرب دنیا بھی اب فلسطین کے مسئلے پر ایک مشترکہ اور مضبوط مؤقف اپنا رہی ہے۔
برطانیہ میں سیاسی تقسیم اور مستقبل کے امکانات:
برطانیہ کے اس فیصلے پر اندرون ملک بھی شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ اپوزیشن کے رہنماؤں اور کچھ قدامت پسند رہنماؤں نے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب مشرق وسطیٰ میں پہلے ہی کشیدگی عروج پر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ برطانیہ کو مشرق وسطیٰ کے تنازع میں مزید گھسیٹ لے گا اور اس سے اس کے سفارتی تعلقات پیچیدہ ہو جائیں گے۔
دوسری طرف، لیبر پارٹی اور دیگر بائیں بازو کی جماعتوں نے اس فیصلے کی بھرپور حمایت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک اخلاقی اور منصفانہ فیصلہ ہے جو انسانیت کے اصولوں پر مبنی ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ دو ریاستی حل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ دونوں فریقوں کو یکساں حیثیت نہ دی جائے۔
عالمی سطح پر اس فیصلے کے ممکنہ نتائج:
اس فیصلے سے عالمی سطح پر کئی اہم نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
- امریکہ اور برطانیہ کے تعلقات میں تناؤ: یہ فیصلہ برطانیہ اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں ایک نیا موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک کے تعلقات مضبوط ہیں، لیکن اس فیصلے نے ظاہر کر دیا ہے کہ برطانیہ اب خارجہ پالیسی میں امریکہ کے دباؤ کے بغیر آزادانہ فیصلے کر سکتا ہے۔
- یورپی یونین پر دباؤ: برطانیہ کے اس فیصلے کے بعد یورپی یونین کے دیگر ممالک پر بھی دباؤ بڑھ جائے گا کہ وہ بھی فلسطین کی ریاست کو تسلیم کریں۔
- عالمی امن مذاکرات پر اثرات: یہ فیصلہ مستقبل کے امن مذاکرات کی نوعیت کو تبدیل کر سکتا ہے۔ اب فلسطینیوں کو ایک مضبوط سفارتی حیثیت حاصل ہوگی، جس سے وہ مذاکرات میں ایک برابر کے فریق کے طور پر حصہ لے سکیں گے۔
اس طرح، برطانیہ کا یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عالمی سطح پر سیاست میں کئی بڑے فیصلے لیے جا رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس کے گہرے اور دور رس نتائج ہو سکتے ہیں، اور اس پر عالمی برادری کی نظریں مرکوز رہیں گی۔ یہ ایک ایسا قدم ہے جو مشرق وسطیٰ میں امن کی کوششوں کو ایک نئی سمت دے سکتا ہے اور فلسطین کے مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر دوبارہ مرکزی اہمیت دے سکتا ہے۔