
نیپال کی صدیوں پرانی اور منفرد ثقافتی روایت نے ایک بار پھر قومی توجہ کا مرکز بنالیا ہے، جب 30 ستمبر 2025 کو کھٹمنڈو کے تاریخی شہر بھگتا پور (Bhaktapur) میں ایک نئی زندہ دیوی (Living Goddess) یعنی ’کماری‘ کا انتخاب عمل میں آیا۔ یہ کماری مقامی نیواری کمیونٹی (Newari Community) سے تعلق رکھنے والی ایک چھوٹی بچی ہے، جس کی عمر تقریباً [تخمینی طور پر: 5 یا 6 سال] بتائی جاتی ہے، اور اب وہ ہندومت اور بدھ مت کے درمیان مشترکہ طور پر پوجی جانے والی دیوی تلجو بھوانی (Taleju Bhawani) کی زمینی نمائندگی کرے گی۔
اس انتخاب کے ساتھ ہی سابقہ کماری کا دور مکمل ہو گیا، اور مذہبی رسومات کے ایک سلسلے کے بعد ان کی منتقلی عمل میں آئی۔ یہ تقریب نہ صرف نیپال کی رنگا رنگ ثقافت اور گہری مذہبی جڑوں کو ظاہر کرتی ہے بلکہ دنیا کے لیے بھی ایک حیرت کا باعث ہے جہاں کسی زندہ بچی کو دیوی کا درجہ دے کر پوجا کی جاتی ہے۔ یہ روایت کئی پہلوؤں سے تنازعات اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کی توجہ کا مرکز بھی رہتی ہے۔
کُماری کون ہے اور اس کا انتخاب کیوں؟
’کماری‘ یا ’زندہ دیوی‘ نیپال کی ایک قدیم روایت ہے جو 17ویں صدی سے مروج ہے۔ کماری کو دیوی تلجو بھوانی کا روپ سمجھا جاتا ہے، جنہیں قوت اور تحفظ کی دیوی مانا جاتا ہے۔ نیپال کا ماننا ہے کہ کُماری کے روپ میں دیوی اس وقت تک رہتی ہے جب تک بچی کو بلوغت نہ آ جائے یا وہ خون بہانے والے کسی حادثے کا شکار نہ ہو جائے۔
۱۔ انتخاب کا سخت اور پیچیدہ عمل:
نئی کماری کا انتخاب نیواری برادری کے بجراچاریہ (Bajracharya) پجاریوں اور جیوتشیوں (Astrologers) کی ایک کمیٹی کرتی ہے۔ یہ انتخاب کسی بیوٹی پیجنٹ یا مقابلے کی طرح نہیں ہوتا بلکہ کئی سخت جسمانی اور روحانی معیاروں پر مبنی ہوتا ہے۔ بچی کو ان معیاروں پر پورا اترنا ضروری ہے:
- صحت اور خوبصورتی: بچی کو بالکل صحت مند، خوبصورت اور بے داغ جلد کا حامل ہونا چاہیے۔
- جسمانی معیار: بتیس مخصوص جسمانی نشانیاں (32 perfect attributes) ہونی چاہییں، جن میں شیر کی طرح سینہ، بانس کے درخت جیسی صاف ٹانگیں، ہرن جیسی آنکھیں، اور بطخ جیسی آواز شامل ہیں۔
- پیدائشی برج: اس کا پیدائشی زائچہ (Horoscope) شاہی نجومیوں کے ساتھ مکمل مطابقت رکھتا ہو۔
- شجاعت کا امتحان: بچی کو کئی خوفناک نفسیاتی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق، اسے ایک تاریک کمرے میں بند کر دیا جاتا ہے جہاں کٹی ہوئی بھینسوں کے سر رکھے ہوتے ہیں اور خوفناک ماسک پہنے ہوئے لوگ چیختے چلاتے ہیں۔ جو بچی خوفزدہ ہوئے بغیر وہاں ٹھہر جاتی ہے، وہ دیوی کے روپ کے لیے منتخب ہو جاتی ہے۔ یہ آزمائش اس بات کا ثبوت سمجھی جاتی ہے کہ بچی دیوی کی طاقت کو برداشت کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔
۲۔ نئی کُماری کے لیے رسومات:
منتخب ہونے کے بعد، بچی کو اس کے والدین سے لے کر کُماری گھر (Kumari Ghar) منتقل کر دیا جاتا ہے، جو کھٹمنڈو کے دربار سکوائر (Durbar Square) میں واقع ہے۔ رسومات کے ذریعے، یہ بچی دیوی کا مجسمہ بن جاتی ہے۔ وہ ایک روایتی گھر میں پجاریوں اور نگراں کاروں کی نگرانی میں رہتی ہے اور سال میں صرف تیرہ بار عوامی طور پر باہر نکلتی ہے۔ اس کے پاؤں زمین پر نہیں لگنے دیے جاتے اور اسے ہمیشہ شاہی پالکی میں اٹھا کر لے جایا جاتا ہے۔
سابقہ کُماری کی منتقلی اور نئے دور کا آغاز
نئی کماری کے انتخاب کے ساتھ ہی، سابقہ کماری کا دور ختم ہو گیا۔ سابقہ دیوی، جس کا نام [فرض کریں: تریشا شاکیہ] تھا، نے اپنے دور میں کئی اہم تہواروں میں شرکت کی اور لوگوں کو آشیرواد دیا۔
۱۔ سابقہ کُماری کی واپسی:
سابقہ دیوی کی زندگی اس وقت ایک نازک موڑ پر آ جاتی ہے جب وہ دوبارہ عام زندگی میں واپس آتی ہے۔
- رسمی منتقلی: ایک خاص مذہبی تقریب کے ذریعے دیوی کی روح کو بچی کے جسم سے ایک طلائی مورت (Golden Idol) میں منتقل کیا جاتا ہے۔
- عام زندگی: وہ ایک بار پھر عام بچی بن جاتی ہے، اپنے والدین کے پاس واپس چلی جاتی ہے، اور سکول جانا شروع کر دیتی ہے۔
- جذباتی چیلنجز: زندہ دیوی کے طور پر ایک الگ تھلگ زندگی گزارنے کے بعد، سابقہ کماریوں کو دوبارہ سماجی زندگی میں ڈھلنے میں اکثر شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں سکول کے ساتھیوں کے ساتھ گھلنے ملنے، دوستی کرنے، اور عام بچوں کی طرح کھیلنے میں خاصی دقت پیش آتی ہے۔
- روایتی توہمات: ایک عرصے تک یہ توہم پرستی بھی پھیلی رہی کہ سابقہ کماری سے شادی کرنے والا مرد بدقسمت ہوتا ہے یا اسے جلد ہی کوئی نقصان پہنچتا ہے، جس کی وجہ سے کئی سابقہ کماریوں کو شادی کرنے میں طویل جدوجہد کرنی پڑی۔ تاہم، حالیہ برسوں میں تعلیم اور آگاہی کی وجہ سے یہ توہمات کمزور پڑی ہیں۔
۲۔ زندگی کا دوبارہ آغاز:
نیپالی حکومت اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی کوششوں سے اب سابقہ کماریوں کو تعلیم اور مالی امداد فراہم کی جاتی ہے تاکہ وہ عام زندگی میں کامیابی سے دوبارہ شامل ہو سکیں۔ انہیں وظائف اور نفسیاتی مدد فراہم کی جاتی ہے تاکہ پانچ سے دس سال تک دیوی کی حیثیت میں رہنے کے بعد درپیش سماجی دباؤ کا مقابلہ کیا جا سکے۔
انسانی حقوق کے خدشات اور عالمی دباؤ
کُماری کی روایت، اگرچہ نیپالی ثقافت کے لیے انتہائی اہم ہے، لیکن طویل عرصے سے انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی برادری کی جانب سے تنقید کی زد میں ہے۔ ناقدین کا بنیادی اعتراض بچی کی ذہنی اور تعلیمی آزادی پر پابندی سے متعلق ہے۔
۱۔ تنقید کے اہم نکات:
- آزادی کی محرومی: کماری کو بچپن کے اہم سالوں میں ایک محدود کمرے میں رہنے اور دوسروں سے کٹے رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے، جو بچپن کی آزادی (Childhood Freedom) اور ذہنی نشوونما کو شدید متاثر کر سکتا ہے۔
- تعلیمی رکاوٹیں: اگرچہ اب کماریوں کو نجی اساتذہ کے ذریعے تعلیم دی جاتی ہے، لیکن روایتی دیوی کے کردار میں رہتے ہوئے باقاعدہ سکول جانے سے محروم رہنا ان کے بنیادی تعلیمی حقوق کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے۔
- تنہائی: کماری کے تنہا رہنے اور صرف پجاریوں سے بات چیت کرنے کے اصولوں سے اس کے جذباتی اور سماجی تعلقات بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔
۲۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ:
2008 میں، نیپال کی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ یہ روایت برقرار رہ سکتی ہے، لیکن حکومت کو حکم دیا کہ وہ کماریوں کے بنیادی حقوق، تعلیم اور صحت کو یقینی بنائے۔ اس عدالتی فیصلے کے بعد، حکومت نے کُماری کے گھر میں اساتذہ کی تعیناتی اور ان کی دیکھ بھال کے لیے خصوصی اقدامات کیے ہیں تاکہ یہ بچیاں دیوی کا درجہ سنبھالنے کے باوجود تعلیمی اور سماجی طور پر پیچھے نہ رہیں۔ تاہم، انسانی حقوق کے کارکن اب بھی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اس روایت کو بالکل ختم کر دینا چاہیے۔
ثقافتی اور تاریخی اہمیت
ان تمام چیلنجز کے باوجود، نیپال کی اکثریت، خاص طور پر نیواری برادری، کماری کو ملکی سلامتی اور خوشحالی کے لیے انتہائی ضروری سمجھتی ہے۔
۱۔ بادشاہی علامت:
تاریخی طور پر، کماری کو نیپالی بادشاہت کی سرپرست دیوی کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ بادشاہ باقاعدگی سے کماری سے آشیرواد لیتے تھے تاکہ ان کی حکومت مستحکم رہے۔ اگرچہ نیپال اب ایک جمہوری ملک ہے اور شاہی نظام ختم ہو چکا ہے، لیکن صدر اور دیگر اعلیٰ عہدیدار اب بھی کُماری کے آشیرواد کو عزت دیتے ہیں۔
۲۔ مذہبی ہم آہنگی:
کماری کی روایت کی ایک منفرد بات یہ ہے کہ اسے ہندومت اور بدھ مت دونوں مذاہب کے پیروکار تسلیم کرتے اور پوجتے ہیں۔ یہ نیپال کی مذہبی ہم آہنگی اور بقائے باہمی (Coexistence) کی ایک بہترین مثال ہے۔ کُماری کے پجاری ہندو ہو سکتے ہیں، لیکن خود کماری بچی بدھ مت کے شاکیہ خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔
۳۔ اندرا جاترا تہوار:
ہر سال اندرا جاترا کا تہوار، جو نیپالی تقویم میں سب سے اہم مانا جاتا ہے، نئی کماری کی شمولیت کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اس تہوار کے دوران کماری کو اس کی شاہی پالکی میں شہر بھر میں لے جایا جاتا ہے، جہاں ہزاروں عقیدت مند اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے جمع ہوتے ہیں اور دیوی سے دعا و آشیرواد لیتے ہیں۔ یہ ایک ایسا منظر ہوتا ہے جو نیپال کے علاوہ دنیا میں کہیں اور نہیں دیکھا جا سکتا۔
خلاصہ یہ ہے کہ نئی ’زندہ دیوی‘ کے انتخاب نے ایک بار پھر نیپالی عوام کی مذہبی گہرائی اور صدیوں پرانی روایت پر پختہ یقین کو اجاگر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، یہ عالمی سطح پر ان بحثوں کو بھی دوبارہ زندہ کرتا ہے جو بچوں کے حقوق، مذہب اور ثقافت کے نازک توازن پر مرکوز ہیں۔ حکومت کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے، ان بچیوں کی صحت، تعلیم اور مستقبل کے حقوق کو ہر قیمت پر یقینی بنائے۔