
پاکستان کی سیاست اور پارلیمانی امور سے متعلق ایک اہم عدالتی پیش رفت میں، سپریم کورٹ آف پاکستان میں الیکشنز ایکٹ، 2017 میں کی گئی حالیہ ترامیم کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کے ساتھ ایک آئینی درخواست دائر کی گئی ہے۔ یہ ترامیم، خاص طور پر سیکشن 232 اور 232A میں کی گئی تبدیلیاں، ملک کے انتخابی اور سیاسی نظام پر دور رس اثرات مرتب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ درخواست گزار نے عدالت عظمیٰ سے یہ استدعا کی ہے کہ ان ترامیم کو آئین کے منافی قرار دے کر فی الفور ختم کیا جائے۔
درخواست کے اہم دلائل اور پس منظر
یہ درخواست ایک ایسے وقت میں دائر کی گئی ہے جب ملک میں سیاسی استحکام اور آئینی اداروں کی بالادستی کے حوالے سے بحث جاری ہے۔ درخواست گزار نے اپنے دلائل کی بنیاد بنیادی حقوق، شفافیت، اور انصاف کی فراہمی پر رکھی ہے۔
۱۔ تاحیات نااہلی کا معاملہ اور پارلیمنٹ کا اختیار
درخواست کا مرکزی نکتہ انتخابی قوانین میں کی گئی وہ ترامیم ہیں جو سیاسی رہنماؤں کی تاحیات نااہلی کے معاملے کو متاثر کرتی ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 62(1)(f) کے تحت عائد تاحیات نااہلی کی مدت کو کم کرنے کے لیے جو قانونی راستہ اپنایا گیا ہے، اسے درخواست میں چیلنج کیا گیا ہے۔
- درخواست گزار کا مؤقف: پارلیمنٹ نے ان ترامیم کے ذریعے عدلیہ کے دائرہ اختیار میں مداخلت کی ہے۔ آئین کی تشریح اور آرٹیکل 62 اور 63 جیسے اہم آرٹیکلز کے تحت نااہلی کی مدت کا تعین کرنا عدالت عظمیٰ کا استحقاق ہے، اور قانون سازی کے ذریعے عدالتی فیصلوں کے اثر کو ختم کرنے کی کوشش آئینی ڈھانچے کے خلاف ہے۔
۲۔ انتخابی شفافیت پر خدشات
درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ترامیم انتخابی عمل کی شفافیت اور غیر جانبداری پر سوالات اٹھاتی ہیں۔ کسی خاص سیاسی گروپ یا فرد کو فائدہ پہنچانے کے لیے جلدی میں کی گئی قانون سازی، انتخابی عمل میں عوام کے اعتماد کو نقصان پہنچاتی ہے۔
- جمہوریت اور قانون کی حکمرانی: درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ قانون کی حکمرانی کا اصول ہر شہری کے لیے یکساں ہونا چاہیے۔ انتخابی قوانین میں ایسی تبدیلی جو مخصوص افراد کے لیے ریلیف فراہم کرے، آرٹیکل 25 (مساوات) کی خلاف ورزی ہے۔
سپریم کورٹ میں آئینی اہمیت
یہ کیس سپریم کورٹ کے لیے کئی آئینی نکات پر حتمی فیصلہ دینے کا موقع فراہم کرتا ہے، جن میں عدلیہ اور پارلیمنٹ کے اختیارات کی تقسیم سب سے اہم ہے۔
۱۔ عدالتی نظرثانی کا دائرہ کار (Judicial Review)
عدالت اس بات کا جائزہ لے گی کہ آیا پارلیمنٹ کو آئینی ترامیم کے ذریعے عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کے اثر کو معکوس (Reverse) کرنے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں۔ یہ کیس بنیادی ڈھانچے کے اصول (Basic Structure Doctrine) اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی حدود کے درمیان توازن قائم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔
۲۔ مستقبل کے سیاسی منظرنامے پر اثر
اگر عدالت ان ترامیم کو کالعدم قرار دیتی ہے، تو یہ فیصلہ ان تمام سیاست دانوں پر براہ راست اثر انداز ہو سکتا ہے جن کی نااہلی کو ان تبدیلیوں کے بعد ختم یا کم کیا گیا تھا۔ اس کا اثر آئندہ انتخابات میں ان کی شرکت اور ملک کے سیاسی منظرنامے کی تشکیل نو پر پڑ سکتا ہے۔
حکومتی اور سیاسی ردعمل
حکومت، جس نے یہ ترامیم منظور کروائی تھیں، کا مؤقف ہے کہ یہ قانون سازی پارلیمنٹ کے آئینی دائرہ اختیار میں کی گئی ہے اور اس کا مقصد انتخابی عمل کو مزید ہموار بنانا تھا۔ حکومت کی جانب سے عدالت میں مضبوط قانونی دفاع پیش کیے جانے کی توقع ہے۔
سیاسی حلقوں میں اس درخواست پر شدید ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ایک طرف وہ سیاسی جماعتیں ہیں جو ان ترامیم سے براہ راست فائدہ اٹھا رہی ہیں، اور دوسری طرف وہ جماعتیں جو اسے ایک سیاسی انجینئرنگ کا حصہ قرار دے رہی ہیں اور ان تبدیلیوں کی منسوخی کے حق میں ہیں۔
توقع ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں ایک بڑا بینچ اس اہم آئینی معاملے کی سماعت کرے گا، جس کے نتائج پاکستان کی سیاسی اور قانونی تاریخ پر گہرے اثرات چھوڑ سکتے ہیں۔