google-site-verification=aZNfMycu8K7oF6lNUgjpjoa8ZAyM0qfHriwatL8flQ4
Peru cut relations with mexico

جنوبی امریکہ کے دو اہم ممالک، پیرو اور میکسیکو، کے درمیان سفارتی تعلقات میں شدید بحران پیدا ہو گیا ہے جس کے نتیجے میں پیرو نے میکسیکو کے ساتھ تمام سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا باضابطہ اعلان کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب پیرو کے سابق وزیر اعظم (جن کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے) نے میکسیکو میں سیاسی پناہ لینے کا دعویٰ کیا اور میکسیکو کی حکومت نے بظاہر اس پر مثبت ردعمل ظاہر کیا۔

بحران کی جڑ: سیاسی پناہ کا مسئلہ

دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی بنیادی وجہ پیرو کے سابق وزیر اعظم کا وہ دعویٰ ہے جس میں انہوں نے مبینہ طور پر پیرو میں اپنے خلاف سیاسی انتقام یا عدم تحفظ کا خطرہ ظاہر کرتے ہوئے میکسیکو سے سیاسی پناہ کی درخواست کی ہے۔

پیرو کی حکومت کا موقف:

پیرو کے صدر اور وزیر خارجہ نے مشترکہ پریس کانفرنس میں میکسیکو کی حکومت کے اس اقدام کو پیرو کے اندرونی معاملات میں “ناقابلِ قبول مداخلت” قرار دیا ہے۔ پیرو کی جانب سے جاری کردہ سخت بیان میں کہا گیا کہ میکسیکو نے ایک ایسے شخص کو پناہ دینے کی کوشش کی ہے جس کے خلاف پیرو کے عدالتی نظام میں سنگین الزامات کے تحت تحقیقات جاری ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اقدام دونوں خودمختار ریاستوں کے درمیان احترام کے اصولوں کی سنگین خلاف ورزی ہے اور میکسیکو کی جانب سے باضابطہ سفارتی چینلز اور بین الاقوامی معاہدوں کو نظرانداز کیا گیا ہے۔

صدر نے واضح کیا: “ہم کسی بھی ملک کو یہ حق نہیں دے سکتے کہ وہ ہمارے اندرونی عدالتی عمل کو سبوتاژ کرے اور قانون سے فرار ہونے والے افراد کو پناہ دے۔ ہم سفارتی احترام چاہتے تھے، لیکن ہمیں مداخلت ملی۔”

سفارتی چینلز کا خاتمہ

پیرو کی وزارت خارجہ نے فوری طور پر میکسیکو میں تعینات اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے اور میکسیکو کے سفیر کو بھی ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ان تعلقات کو فوری طور پر نچلی سطح پر (معاملات کو صرف قونصلر یا غیر رسمی نمائندگی تک محدود) کر دیا گیا ہے۔

سابق وزیر اعظم کی حیثیت

سابق وزیر اعظم، جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ کرپشن، اختیارات کے ناجائز استعمال، یا دیگر سیاسی نوعیت کے جرائم کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں، نے مبینہ طور پر ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے موجودہ پیرو حکومت پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور حزب اختلاف کو دبانے کا الزام لگایا ہے۔ انہوں نے میکسیکو کو لاطینی امریکہ میں جمہوریت اور آزادی کی آخری پناہ گاہوں میں سے ایک قرار دیا۔ تاہم، پیرو کے پراسیکیوٹر جنرل کے دفتر نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے اور انہیں “دفاعی حکمت عملی” قرار دیا ہے۔

میکسیکو کا دفاعی ردعمل

میکسیکو کے صدر (ان کا نام بھی ظاہر نہیں ہے) نے اس پیش رفت پر افسوس کا اظہار کیا ہے لیکن اپنے ملک کے فیصلے کا دفاع کیا ہے۔ میکسیکو کے صدر کا موقف ہے کہ سیاسی پناہ فراہم کرنا ان کے ملک کی ایک دیرینہ روایتی پالیسی ہے جو بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے اصولوں کے تحت آتی ہے۔ میکسیکو کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ وہ پیرو کے عوام اور ثقافت کا احترام کرتے ہیں اور پیرو کی حکومت سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔

میکسیکو کے صدر کا بیان: “ہمیشہ سے ہماری روایت رہی ہے کہ ہم ان لوگوں کو پناہ دیتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ان کی جان یا ان کی آزادی خطرے میں ہے۔ اس اقدام کو پیرو کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔”

لاطینی امریکہ پر اثرات

پیرو اور میکسیکو کا تنازع لاطینی امریکہ کے لیے ایک اہم سفارتی چیلنج بن چکا ہے۔ یہ خطہ پہلے ہی کئی ممالک میں سیاسی عدم استحکام اور دائیں بازو اور بائیں بازو کی حکومتوں کے درمیان نظریاتی کشمکش کا شکار ہے۔

  • علاقائی سفارت کاری: پیرو کے اس سخت ردعمل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سیاسی پناہ کے معاملے کو قومی خود مختاری کے خلاف ایک چیلنج کے طور پر دیکھتا ہے۔
  • عوامی ردعمل: پیرو میں حزب اختلاف نے حکومت کے اس فیصلے کی حمایت کی ہے، جبکہ میکسیکو میں اپوزیشن نے صدر کے فیصلے پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

اس تنازع کے طویل المدتی اثرات یہ ہو سکتے ہیں کہ لاطینی امریکہ میں سفارتی تعلقات مزید کشیدہ ہوں اور علاقائی پلیٹ فارمز جیسے کہ او اے ایس (OAS) میں بحث و مباحثہ کا ماحول پیدا ہو۔

مستقبل کے امکانات

ماہرین کا خیال ہے کہ تعلقات کا مکمل خاتمہ شاید مستقل نہ ہو۔ سفارتی تعلقات کی نچلی سطح پر موجودگی سے یہ امید باقی ہے کہ قونصلر امور کے ذریعے کم از کم شہریوں کے مسائل حل ہوتے رہیں گے۔ تاہم، سیاسی کشیدگی اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک سابق وزیر اعظم کا معاملہ حل نہیں ہو جاتا یا جب تک پیرو کی حکومت مطمئن نہیں ہو جاتی کہ بین الاقوامی قوانین کے تحت ان کی خود مختاری کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

اب تمام نگاہیں بین الاقوامی عدالتوں اور علاقائی تنظیموں پر مرکوز ہیں کہ وہ اس سفارتی تعطل کو ختم کرنے میں کیا کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ واقعہ لاطینی امریکی سفارت کاری کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کر چکا ہے۔

About The Author

صفراوادی‘: انڈونیشیا کا وہ ’مقدس غار جہاں مکہ تک پہنچانے والی خفیہ سرنگ‘ موجود ہے جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے کیا دیکھا؟ سی ڈی اے ہسپتال میں لفٹ خراب ٹریفک پولیس جدید طریقہ واردات