پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے آج ایک انتہائی اہم بیان میں تصدیق کی ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی عبوری حکومت (افغان طالبان) کے درمیان سرحدی سیکیورٹی، خصوصاً تحریک طالبان پاکستان کے مسئلے پر جاری سیکیورٹی مذاکرات کا سلسلہ “غیر معینہ مدت کے لیے ختم” ہو چکا ہے۔ ان کا یہ بیان اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات میں ایک نیا سفارتی بحران پیدا ہو گیا ہے۔
استنبول مذاکرات میں تعطل
خواجہ آصف نے جیو نیوز کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ ترکی کے شہر استنبول میں حال ہی میں ہونے والے مذاکرات کے تیسرے دور میں دونوں فریقین اپنے بنیادی اختلافات کو دور کرنے میں ناکام رہے، جس کے باعث مذاکرات بغیر کسی معاہدے کے تعطل کا شکار ہو گئے۔
وزیر دفاع نے واضح کیا: “اس وقت جب ہم بات کر رہے ہیں، مذاکرات ختم ہو چکے ہیں، اور یہ سلسلہ غیر معینہ مدت کے لیے ایک تعطل میں داخل ہو گیا ہے۔” انہوں نے اشارہ دیا کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر ہونے والے حملوں کو روکنے کے حوالے سے کابل حکومت کی جانب سے “ٹھوس اور قابلِ تصدیق کارروائی” کا فقدان مذاکرات کی ناکامی کی بنیادی وجہ بنا۔
پاکستان کا ایک نکاتی ایجنڈا
پاکستان کی جانب سے استنبول بھیجے گئے وفد، جس کی قیادت انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ کر رہے تھے، کا ایجنڈا واضح تھا۔ پاکستان کا اصرار تھا کہ:
- ٹی ٹی پی کا خاتمہ: افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دیا جائے۔
- نگرانی کا طریقہ کار: ایک ایسا مؤثر مشترکہ نگرانی کا نظام (Monitoring and Verification Mechanism) قائم کیا جائے جو جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی نگرانی کر سکے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دے سکے۔
تاہم، ذرائع کے مطابق، افغان طالبان نے ہمیشہ کی طرح ٹی ٹی پی کی موجودگی یا پاکستان مخالف کارروائیوں میں ملوث ہونے کے الزامات کو مسترد کیا، جس سے دونوں اطراف کے درمیان گہرا عدم اعتماد برقرار رہا اور مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پائے۔
“مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں صرف جنگ ہو گی”
یہ اعلان ایک روز بعد سامنے آیا ہے جب خواجہ آصف نے خود استنبول مذاکرات کے آغاز پر انتہائی سخت لہجے میں خبردار کیا تھا کہ: “اگر آج کے مذاکرات ناکام ہوئے تو پھر صرف جنگ ہوگی۔” ان کے ان بیانات نے سفارتی کوششوں کی نازک نوعیت اور پاکستان کی بڑھتی ہوئی عسکری تشویش کو اجاگر کیا تھا۔
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ پاکستان کا صبر جواب دے رہا ہے اور سرحد پار سے ہونے والے حملوں کا اسی طریقے سے جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ انہوں نے کابل سے دانشمندی کا استعمال کرنے اور علاقے میں امن بحال کرنے کی امید ظاہر کی تھی، مگر آج کا اعلان اس امید کے برخلاف ہے۔
تعلقات کی موجودہ صورتحال
پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان تعلقات گذشتہ چند ہفتوں سے شدید تناؤ کا شکار ہیں، خاص طور پر سرحد پر ہونے والی ہلاکت خیز جھڑپوں اور دونوں جانب سے ایک دوسرے پر فائرنگ کے الزامات کے بعد۔ مذاکرات کے پچھلے دو دور، جو دوحہ اور استنبول میں ہوئے تھے، صرف ایک عارضی جنگ بندی پر ہی اتفاق کر پائے تھے، لیکن سیکیورٹی میکانزم پر کوئی پائیدار معاہدہ نہیں ہو سکا تھا۔
مذاکرات کے خاتمے کے بعد، علاقائی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی تناؤ اور سیکیورٹی چیلنجز میں مزید شدت آنے کا خطرہ ہے، اور پاکستان کی جانب سے سرحد پار انسداد دہشت گردی کے آپریشنز کے آپشنز پر غور کیا جا سکتا ہے۔
