google-site-verification=aZNfMycu8K7oF6lNUgjpjoa8ZAyM0qfHriwatL8flQ4
Dehli high court decision

دفعہ 34 SARFAESI ایکٹ کا دائرہ کار واضح؛ سول عدالتوں کے اختیارات کی بحالی سے قرض دہندگان کو بڑا ریلیف

SEO کلیدی الفاظ: دہلی ہائی کورٹ SARFAESI ایکٹ، دفعہ 34 SARFAESI ایکٹ، رجسٹرڈ سیل ڈیڈ منسوخی، DRT دائرہ کار، سول عدالتوں کے اختیارات، ڈی آر ٹی فیصلہ، عدالتی فیصلہ قرض دہندگان۔

نئی دہلی:

دہلی ہائی کورٹ نے سیکیورٹائزیشن اور مالی اثاثوں کی تعمیر نو اور سیکیورٹی انٹرسٹ کا نفاذ ایکٹ، 2002 (SARFAESI ایکٹ) کی تشریح میں ایک اہم اور تاریخی فیصلہ سنایا ہے، جس سے قانونی دائرہ کار کے حوالے سے طویل عرصے سے جاری ابہام دور ہو گیا ہے۔ ہائی کورٹ نے واضح کیا ہے کہ رجسٹرڈ سیل ڈیڈز (Registered Sale Deeds) کو منسوخ کرنے یا کالعدم قرار دینے کا اختیار ڈیبٹ ریکوری ٹریبونل (DRT) کے دائرہ کار سے باہر ہے اور ایسے معاملات پر سول عدالتوں کا دائرہ کار لاگو ہوتا ہے۔

عدالتی فیصلے میں ایک ایسے مقدمے کو بحال کر دیا گیا جسے ابتدائی طور پر اس بنیاد پر خارج کر دیا گیا تھا کہ تمام معاملات SARFAESI ایکٹ کی دفعہ 34 کے تحت صرف DRT کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔

دفعہ 34 SARFAESI ایکٹ کی واضح تشریح

SARFAESI ایکٹ کی دفعہ 34 عام طور پر سول عدالتوں کو ان تمام معاملات میں دائرہ کار سے خارج کرتی ہے جو ٹریبونل (DRT) کے تحت آتے ہیں۔ بینکوں اور مالیاتی اداروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کو روکنے کے لیے یہ دفعہ ایک ڈھال کے طور پر کام کرتی ہے۔

تاہم، ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ دفعہ 34 صرف ان معاملات پر سول عدالتوں کا دائرہ کار روکتی ہے جو SARFAESI ایکٹ کے تحت کیے گئے اقدامات کے حوالے سے ہوں۔ چونکہ DRT کو خصوصی طور پر بینکوں اور مالیاتی اداروں کے قرضوں کی وصولی کے لیے قائم کیا گیا ہے، لہٰذا اس کا بنیادی مقصد سیکیورٹی سود کے نفاذ (Enforcement of Security Interest) پر کسی بھی تنازع کا فیصلہ کرنا ہے۔

عدالت نے یہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ کسی رجسٹرڈ قانونی دستاویز (جیسے سیل ڈیڈ) کو منسوخ کرنے یا اسے جھوٹا قرار دینے کا مطالبہ ایک وسیع تر قانونی سوال ہے جو صرف SARFAESI ایکٹ کی دفعات کے نفاذ سے متعلق نہیں ہے۔ سیل ڈیڈ کی منسوخی معاہدہ قانون، دھوکہ دہی، اور ملکیت کے حقوق جیسے پیچیدہ سوالات کو جنم دیتی ہے، اور ان سوالات پر فیصلہ کرنے کا اختیار باضابطہ سول عدالتوں کو حاصل ہے۔

سول سوٹ کی بحالی اور مقدمے کا پس منظر

جس مقدمے میں یہ فیصلہ سنایا گیا، اس میں قرض دہندگان نے بینک کے خلاف ایک سول مقدمہ دائر کیا تھا جس میں انہوں نے بینک کی جانب سے سیکیورٹی اثاثہ جات کی فروخت کے عمل اور بعد میں رجسٹرڈ ہونے والی سیل ڈیڈ کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ٹرائل کورٹ نے ابتدا میں مقدمہ یہ کہہ کر خارج کر دیا تھا کہ SARFAESI ایکٹ کے تحت یہ معاملہ صرف DRT کے دائرہ کار میں آتا ہے۔

دہلی ہائی کورٹ نے نچلی عدالت کے اس حکم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا:

“DRT کو SARFAESI ایکٹ کے تحت کوئی رجسٹرڈ دستاویزات کو کالعدم قرار دینے یا منسوخ کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ سیل ڈیڈ کی منسوخی سول عدالت کے دائرہ کار میں ہی آتی ہے۔”

اس فیصلے کے نتیجے میں قرض دہندگان (Borrowers) کو بڑا ریلیف ملا ہے جو یہ محسوس کرتے تھے کہ وہ بینکوں کے ذریعہ کی گئی جائیداد کی فروخت کے خلاف انصاف کے حصول کے لیے صرف DRT تک محدود ہیں، جبکہ ان کی بنیادیں دھوکہ دہی یا منسوخی پر مبنی تھیں۔

فیصلے کے اثرات

یہ فیصلہ ہندوستان کے بینکنگ اور مالیاتی قانون میں ایک اہم نظیر قائم کرتا ہے:

  1. سول عدالتوں کا دائرہ کار: اس فیصلے نے ان معاملات میں سول عدالتوں کے اختیارات کو بحال کر دیا ہے جہاں تنازع صرف بینک کے کارروائی کرنے کے حق پر نہیں، بلکہ رجسٹرڈ قانونی دستاویزات (جیسے فروخت نامے) کی قانونی حیثیت پر بھی مبنی ہو۔
  2. قرض دہندگان کا دفاع: قرض دہندگان اب SARFAESI کے تحت کی گئی کارروائیوں کے خلاف دھوکہ دہی یا قانونی خلاف ورزی کی بنیاد پر سول مقدمات دائر کر سکتے ہیں، بشرطیکہ وہ واضح طور پر کسی رجسٹرڈ دستاویز کی منسوخی کا مطالبہ کر رہے ہوں۔
  3. DRT کی حدود: یہ فیصلہ ڈی آر ٹی کے دائرہ کار کی حدود کو واضح کرتا ہے، جو کہ صرف SARFAESI ایکٹ کے نفاذ کے لیے کیے گئے اقدامات کا جائزہ لینے تک محدود ہے۔

یہ فیصلہ سول اور خصوصی ٹریبونلز کے درمیان اختیارات کی تقسیم کے حوالے سے ایک اہم سنگ میل ہے۔

About The Author

صفراوادی‘: انڈونیشیا کا وہ ’مقدس غار جہاں مکہ تک پہنچانے والی خفیہ سرنگ‘ موجود ہے جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے کیا دیکھا؟ سی ڈی اے ہسپتال میں لفٹ خراب ٹریفک پولیس جدید طریقہ واردات