بھارت نے دنیا کا بلند ترین فائٹر ایئربیس تقریباً 13,700 فٹ (4,176 میٹر) کی ریکارڈ ساز بلندی پر کھول دیا ہے۔ یہ انتہائی بلند فضائی اڈہ، جو تزویراتی لحاظ سے ایک حساس پہاڑی خطے میں واقع ہے، اس ملک کی فضائی دفاعی صلاحیتوں کو غیر معمولی تقویت فراہم کرے گا اور علاقائی سیکیورٹی کے توازن پر گہرے اثرات مرتب کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
یہ نیا ایئربیس نہ صرف انجینئرنگ کا ایک بڑا شاہکار ہے بلکہ یہ دنیا کو ایک واضح پیغام بھی دیتا ہے کہ وہ ملک انتہائی مشکل موسمی اور جغرافیائی حالات میں بھی جدید ترین فوجی انفراسٹرکچر کی تعمیر کر سکتا ہے۔
پہلا حصہ: تزویراتی اہمیت اور بلندی کا فائدہ
ایئربیس کی جغرافیائی پوزیشن اسے ایک فیصلہ کن تزویراتی فائدہ فراہم کرتی ہے، جو روایتی فضائی اڈوں سے ممکن نہیں ہے۔
1. فوری فضائی ردعمل (Quick Air Response)
اتنی بلندی پر ایئربیس کی موجودگی دشمن کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے فوری فضائی ردعمل کو یقینی بناتی ہے۔ یہ اڈہ متنازعہ سرحدی علاقوں کے قریب فوجی تعیناتی اور رسد کی فراہمی میں وقت کو کم کر دے گا، جو دفاعی منصوبہ بندی میں ایک گیم چینجر ہے۔
- وقت کی بچت: یہ اڈہ طیاروں کو انتہائی کم وقت میں ہدف تک پہنچنے کی سہولت فراہم کرتا ہے، کیونکہ انہیں میدانی علاقوں سے زیادہ بلندی پر پرواز کر کے اوپر آنے میں وقت ضائع نہیں کرنا پڑتا۔
- دفاعی گہرائی: یہ اڈہ ملک کو اپنی سرحدوں سے دور، فرنٹ لائن پر، اپنی فضائی طاقت کو نمایاں طور پر پیش کرنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ یہ اقدام دفاعی صلاحیت میں اضافہ کا ایک عملی مظاہرہ ہے۔
2. بلند ترین آپریٹنگ چیلنجز
فائٹر جیٹ طیاروں کو 13,700 فٹ کی بلندی پر آپریٹ کرنا بے حد مشکل اور تکنیکی اعتبار سے پیچیدہ ہے۔ طیاروں کو ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے خصوصی طور پر تیار اور اپ گریڈ کیا گیا ہے۔
- کم آکسیجن اور پرفارمنس: اتنی بلندی پر ہوا پتلی ہوتی ہے، جس سے جیٹ انجنوں کی کارکردگی اور طیارے کو ملنے والی لفٹ (Lift) دونوں متاثر ہوتے ہیں۔ طیاروں کو ٹیک آف کے لیے لمبی رن وے اور زیادہ زور (Thrust) کی ضرورت ہوتی ہے۔
- انجینئرنگ اور لاجسٹکس: اس مقام پر ایئربیس کی تعمیر، سامان کی نقل و حمل اور تعمیراتی کارکنوں کے لیے آکسیجن کی کمی اور شدید سردی میں کام کرنا خود ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ اس کے لیے خصوصی بلڈنگ میٹریل اور ٹیکنالوجیز استعمال کی گئیں تاکہ یہ جدید ترین فوجی انفراسٹرکچر شدید موسم کا مقابلہ کر سکے۔
دوسرا حصہ: علاقائی سیکیورٹی پر اثرات
اس نئے انتہائی بلند فضائی اڈہ کے قیام سے خطے میں دفاعی توازن پر براہ راست اثر پڑے گا، خاص طور پر متنازعہ سرحدوں پر۔
1. فضائی برتری کا حصول
یہ ایئربیس اب ملک کو متنازعہ پہاڑی علاقوں پر فضائی برتری حاصل کرنے کی پوزیشن میں لے آتا ہے۔ یہ اس ملک کے جنگی طیاروں کو اپنے حریفوں کے مقابلے میں ایک برتری دے گا، جو انہیں زمین پر موجود اہداف کو زیادہ مؤثر طریقے سے نشانہ بنانے کی صلاحیت فراہم کرے گا۔ یہ ایک نئے دور کے جغرافیائی تزویراتی مقابلہ (Geostrategic Competition) کی نشاندہی کرتا ہے۔
2. جدید ترین طیاروں کی تعیناتی
اطلاعات کے مطابق، اس اڈے پر ملک کے سب سے جدید اور ہلکے جنگی طیارے تعینات کیے جائیں گے، جن میں جدید ریڈار اور ہتھیاروں کے نظام موجود ہیں۔ ان طیاروں کی تعیناتی کا مطلب ہے کہ دفاعی تیاری صرف ایک علامتی اقدام نہیں، بلکہ ایک مکمل آپریشنل تیاری ہے۔
ایک بین الاقوامی دفاعی تجزیہ کار نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، “یہ اڈہ صرف ایک رن وے نہیں ہے؛ یہ تزویراتی عزم کا مظہر ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ملک اپنے دور دراز علاقوں کو نہ صرف دفاع کرنے بلکہ ان علاقوں سے فوجی آپریشنز کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ فائٹر ایئربیس کی تنصیب ایک طویل مدتی دفاعی حکمت عملی کا حصہ ہے۔”
تیسرا حصہ: مستقبل کے منصوبے اور ٹیکنالوجی کی اپ گریڈیشن
اس ایئربیس کی تعمیر کے بعد، دفاعی حکام اب اس کی مکمل آپریشنل صلاحیت کو بڑھانے کے لیے آئندہ کے منصوبوں پر توجہ دے رہے ہیں۔
1. مزید سہولیات کی توسیع
منصوبے میں رن وے کی مزید توسیع، جدید طیارہ ہینگرز، اور پائلٹس اور زمینی عملے کے لیے خصوصی رہائشی سہولیات شامل ہیں جو 13700 فٹ اونچائی پر ایئربیس پر طویل عرصے تک کام کر سکیں۔ چونکہ یہ ایک مشکل ماحول ہے، اس لیے صحت اور حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے خصوصی آکسیجن سپلیمنٹیشن سسٹم اور ہیٹنگ سسٹم نصب کیے جائیں گے۔
2. ٹیکنالوجی اور سیکیورٹی
ایئربیس پر استعمال ہونے والی سیکیورٹی ٹیکنالوجی بھی انتہائی جدید ہو گی، جس میں ہائی ٹیک ریڈار، میزائل دفاعی نظام، اور الیکٹرانک وارفیئر کی صلاحیتیں شامل ہوں گی تاکہ یہ اڈہ کسی بھی ممکنہ حملے سے محفوظ رہے۔
نتیجہ: دنیا کا بلند ترین ایئربیس کی افتتاحی تقریب نے نہ صرف انجینئرنگ کی مہارت کا ایک شاندار مظاہرہ کیا ہے بلکہ علاقائی دفاعی منظرنامے کو بھی بدل کر رکھ دیا ہے۔ یہ اڈہ ملک کی فضائی طاقت کے فروغ اور اس کی سرحدی سیکیورٹی کو یقینی بنانے میں کلیدی کردار ادا کرے گا، جس سے خطے میں موجود دیگر ممالک کو اپنی دفاعی حکمت عملیوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔
