ماسکو/آرکٹک ریجن: روس نے اپنی سمندری تاریخ میں پہلی بار اپنے تمام آٹھ ایٹمی توانائی سے چلنے والے آئس بریکرز (Nuclear Icebreakers) کو آرکٹک کے برفیلے سمندروں میں تعینات کر دیا ہے۔ اس غیر معمولی اقدام کا مقصد شدید سردی اور منجمد سمندر کے باوجود شمالی سمندری راستے (Northern Sea Route) کو عالمی برآمدات اور تجارتی جہاز رانی کے لیے کھلا رکھنا ہے۔
تجارتی راستوں کی بحالی اور اقتصادی اہمیت
روس کی سرکاری ایٹمی توانائی کمپنی ‘روسٹوم’ (Rosatom) کے مطابق، یہ پہلا موقع ہے کہ بیڑے کے تمام آٹھوں جہاز ایک ساتھ سمندر میں موجود ہیں۔ اس مشن کی بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں:
- توانائی کی برآمدات: روس ایشیائی ممالک بالخصوص چین اور بھارت کو مائع قدرتی گیس (LNG) اور تیل کی ترسیل کے لیے آرکٹک کا راستہ استعمال کر رہا ہے تاکہ مغربی پابندیوں کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔
- برف کی شدید تہہ: آرکٹک میں موسم سرما کے دوران برف کی موٹی تہیں بحری جہازوں کے لیے راستہ مسدود کر دیتی ہیں، جنہیں صرف طاقتور ایٹمی آئس بریکر ہی کاٹ سکتے ہیں۔
- شمالی سمندری راستہ (NSR): روس اس راستے کو نہر سویز کے متبادل کے طور پر تیار کر رہا ہے، جو ایشیا اور یورپ کے درمیان فاصلے کو نمایاں طور پر کم کرتا ہے۔
روسی بحری بیڑے کی طاقت
روس دنیا کا واحد ملک ہے جس کے پاس ایٹمی توانائی سے چلنے والے آئس بریکرز کا اتنا بڑا بیڑا ہے۔ اس وقت آرکٹک میں موجود اہم جہازوں میں شامل ہیں:
- ارکٹیکا (Arktika) اور سائبیریا (Sibir): یہ دنیا کے طاقتور ترین آئس بریکرز میں شمار ہوتے ہیں جو 3 میٹر موٹی برف کو کاٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
- یورال (Ural) اور یمال (Yamal): یہ جہاز قافلوں کی قیادت کر رہے ہیں تاکہ کارگو جہاز محفوظ طریقے سے منزل تک پہنچ سکیں۔
تزویراتی اور عالمی اثرات
ماہرین کا کہنا ہے کہ روس کی یہ فوجی اور تجارتی حکمت عملی آرکٹک خطے پر اس کے غلبے کو ظاہر کرتی ہے۔ جہاں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک ابھی اس ٹیکنالوجی میں پیچھے ہیں، وہیں روس نے برفیلے راستوں کو سال بھر کھلا رکھنے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔
آرکٹک کا یہ راستہ نہ صرف روس کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ یہ عالمی سپلائی چین میں روس کے بڑھتے ہوئے کردار کو بھی واضح کرتا ہے۔ عالمی ماحولیاتی ماہرین نے برف پگھلنے اور ایٹمی جہازوں کی بڑے پیمانے پر نقل و حرکت پر خدشات کا اظہار بھی کیا ہے، تاہم روس اسے اپنی قومی سلامتی اور اقتصادی خودمختاری کے لیے ناگزیر قرار دیتا ہے۔
مستقبل کا وژن
روس کا منصوبہ ہے کہ 2030 تک اس بیڑے میں مزید جدید آئس بریکرز شامل کیے جائیں تاکہ آرکٹک کے ذریعے تجارت کو دوگنا کیا جا سکے اور سمندری راستوں پر مکمل کنٹرول حاصل کیا جا سکے۔
