Site icon URDU ABC NEWS

افغانستان کی متبادل تجارتی راستوں کی تلاش: پاکستان پر تجارتی انحصار ختم کرنے کا فیصلہ

Afghanistan for alternative routes for trade

پاکستان کے ساتھ بڑھتی ہوئی سرحدی کشیدگی اور تجارتی راستوں کی بار بار بندش کے بعد افغانستان کی عبوری حکومت نے پاکستان پر اپنا تجارتی انحصار کم کرنے اور متبادل تجارتی راستے تلاش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ فیصلہ طالبان انتظامیہ کے لیے ایک اہم معاشی پالیسی شفٹ کی نشاندہی کرتا ہے، جس کا مقصد ملکی معیشت کو علاقائی دباؤ اور رکاوٹوں سے محفوظ بنانا ہے۔

ملا عبدالغنی برادر کی سخت ہدایات

نائب وزیر اعظم برائے اقتصادی امور، ملا عبدالغنی برادر، نے کابل میں تاجروں اور صنعت کاروں کے ایک اجلاس میں واضح طور پر ہدایت کی کہ وہ پاکستان کے بجائے دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت کے راستے تلاش کریں۔

انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کی سرحدوں کی مسلسل بندش نے نہ صرف افغان تاجروں کو مالی نقصان پہنچایا ہے بلکہ ملکی منڈیوں اور عام عوام کے لیے بھی مشکلات پیدا کی ہیں۔ ملا برادر نے کہا کہ یہ رکاوٹیں سیاسی مقاصد کے لیے تجارتی اور انسانی ہمدردی کے راستوں کو استعمال کرنے کے مترادف ہیں۔

اہم نکات:

متبادل تجارتی راستے اور شراکت دار

خشکی سے گھرا ہوا ملک ہونے کی وجہ سے افغانستان طویل عرصے سے پاکستان کی بندرگاہوں پر انحصار کرتا رہا ہے، لیکن اب وہ خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو مضبوط کر رہا ہے۔ افغان حکومت درج ذیل متبادل راستوں پر توجہ دے رہی ہے:

  1. ایران کا چابہار بندرگاہ: کابل نے بھارت تک براہ راست رسائی کے لیے ایران کی چابہار بندرگاہ کو پاکستان کی جنوبی بندرگاہوں کا ایک اہم متبادل قرار دیا ہے۔ تاہم، بعض تجارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ راستہ دوری اور لاگت کے لحاظ سے نسبتاً مہنگا ہے اور تہران پر امریکی پابندیوں سے بھی متاثر ہو سکتا ہے۔
  2. وسطی ایشیائی ممالک: افغانستان وسطی ایشیائی ممالک جیسے ازبکستان، ترکمانستان، اور تاجکستان کے ساتھ تجارتی روابط کو وسعت دے رہا ہے۔ یہ راستے نہ صرف ٹرانزٹ ٹریڈ کے لیے نئے مواقع فراہم کرتے ہیں بلکہ افغانستان کو روس اور یورپ تک بھی زمینی کنیکٹیویٹی فراہم کر سکتے ہیں۔
  3. بھارت کے ساتھ تجارتی فروغ: افغان وزیر تجارت، نورالدین عزیزی، نے حال ہی میں بھارت سے تجارت کو بڑھانے، خشک بندرگاہیں (dry ports) قائم کرنے میں مدد دینے، اور چابہار بندرگاہ کے ذریعے شیڈول شپنگ سروسز شروع کرنے کی درخواست کی ہے۔

پاکستان کا ردعمل اور معاشی اثرات

پاکستانی حکام نے افغانستان کے اس فیصلے پر اب تک کوئی باضابطہ جواب نہیں دیا ہے، تاہم انہوں نے واضح کیا ہے کہ وہ اس وقت تک افغانستان کے ساتھ بامعنی تجارتی یا اقتصادی سرگرمیاں نہیں کر سکتے جب تک کہ طالبان انتظامیہ پاکستان کو نشانہ بنانے والے دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق:

Exit mobile version