
دنیا بھر میں قوموں کی ترقی کا سفر ان کی ترجیحات، وژن اور عمل سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ جب ہم ترقی یافتہ ممالک کی عروج اور زوال پذیر قوموں کے حالات کا موازنہ کرتے ہیں تو بظاہر معمولی نظر آنے والے اعداد و شمار بھی ایک گہری اور چشم کشا حقیقت کو آشکار کرتے ہیں۔ ایک ایسی حقیقت جو شاید پوری امت کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہو، لیکن افسوس کہ ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ آج ہم اسی تلخ حقیقت کا سامنا کریں گے اور دیکھیں گے کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں اور عالمی سطح پر ہماری پوزیشن کا حقیقی محرک کیا ہے۔
برج خلیفہ بمقابلہ بی-2 بمبار طیارہ: قیمتوں کا چونکا دینے والا موازنہ
ہم جس حقیقت کا سامنا کرنے جا رہے ہیں اس کی ایک انتہائی واضح مثال دنیا کی بلند ترین عمارت، دبئی میں واقع برج خلیفہ اور امریکہ کے ایک جدید ترین بی-2 بمبار طیارے کی تعمیری اور خریدای لاگت کا موازنہ ہے۔ برج خلیفہ، جو کہ انسانی فنِ تعمیر کا ایک شاہکار اور جدیدیت کی علامت ہے، اس کی تعمیر پر تقریباً 1.5 بلین ڈالر لاگت آئی۔ یہ ایک بہت بڑی رقم ہے اور یہ عمارت دنیا بھر میں اپنی عظمت کا لوہا منواتی ہے۔ تاہم، اس کے برعکس، امریکہ کا صرف ایک B-2 بمبار طیارہ، جو کہ ایک سٹریٹجک بمبار اور جدید ترین ٹیکنالوجی کا حامل ہے، اس کی لاگت 2.1 بلین ڈالر ہے۔
کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ یہ موازنہ ہمیں کیا بتاتا ہے؟ برج خلیفہ ایک ایسی عمارت ہے جو سیاحت، رہائش اور تجارت کے لیے استعمال ہوتی ہے، اور بلاشبہ یہ ایک اہم اقتصادی سرگرمی کی علامت ہے۔ لیکن B-2 بمبار طیارہ محض ایک ہتھیار نہیں بلکہ یہ ایک قوم کی دفاعی صلاحیت، اس کی تکنیکی برتری، اس کی تحقیقی و ترقیاتی صلاحیت اور اس کی عالمی طاقت کا مظہر ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ایک قوم اپنی سلامتی، سائنسی ترقی اور مستقبل کے لیے کس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ ایک طرف ایک ایسی عمارت ہے جو اپنی بلندی سے متاثر کرتی ہے، تو دوسری طرف ایک ایسا طیارہ ہے جو اپنی ٹیکنالوجی سے دنیا کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ موازنہ ہمیں ہماری ترجیحات پر گہرائی سے غور کرنے کی دعوت دیتا ہے، اور یہ سوال کھڑا کرتا ہے کہ ہم کس سمت جا رہے ہیں؟
ہماری ترجیحات کیا ہیں؟ عمارتیں بلند کرنا بمقابلہ سوچ بلند کرنا
یہاں اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں؟ متن میں یہ نکتہ اٹھایا گیا ہے کہ “امتِ مسلمہ عمارتیں بلند کرتی رہی، وہ قومیں اپنی سوچ بلند کرتی ہیں۔” یہ ایک انتہائی اہم اور کڑوی حقیقت ہے جسے تسلیم کرنا آج وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اسلامی دنیا میں ہم نے عظیم الشان مساجد، بلند و بالا عمارات اور جدید شہر تعمیر کیے ہیں۔ یہ بلاشبہ ہماری ترقی اور خوشحالی کی ظاہری علامات ہو سکتی ہیں، لیکن کیا یہ ہماری حقیقی ترجیحات کی عکاسی کرتی ہیں؟
ترقی یافتہ قومیں، جن میں امریکہ، یورپ، جاپان اور چین جیسی ممالک شامل ہیں، ان کی ترجیحات میں سب سے اوپر اپنی سوچ کو بلند کرنا، سائنسی تحقیق، تعلیمی معیار، تکنیکی جدت اور دفاعی صلاحیت کو مضبوط بنانا شامل ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ پائیدار ترقی اور عالمی قیادت کے لیے صرف اینٹ اور پتھر کی عمارتیں کافی نہیں، بلکہ انہیں فکری عمارتیں تعمیر کرنی ہوتی ہیں – یعنی ایسے ادارے، تعلیمی نظام اور تحقیقی مراکز قائم کرنے ہوتے ہیں جو نسلوں کی سوچ بدل دیں، انہیں نئے افق دکھائیں اور انہیں چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کریں۔
جب قومیں صرف ظاہری شان و شوکت اور عارضی کامیابیوں پر توجہ مرکوز کرتی ہیں تو وہ فکری اور سائنسی میدان میں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ یہ بنیادی فرق ہے: وہ قومیں جو اپنی سوچ کو بلند کرتی ہیں، وہ سائنسی دریافتیں کرتی ہیں، نئی ٹیکنالوجیز ایجاد کرتی ہیں، اور اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بناتی ہیں۔ اس کے برعکس، جو قومیں صرف عمارتیں بلند کرتی رہتی ہیں، وہ اکثر دوسروں کی ٹیکنالوجی پر انحصار کرتی ہیں اور سکیورٹی کے لحاظ سے کمزور رہ جاتی ہیں۔
پیچھے کیوں ہیں؟ خواب، دعائیں اور تقریریں بمقابلہ منصوبے، محنت اور تحقیق
متن میں ہماری زوال پذیری کے بنیادی اسباب کو تین اہم نکات میں بیان کیا گیا ہے جو کہ انتہائی درست اور قابلِ غور ہیں۔
1. ہم صرف خواب بناتے رہے اور وہ منصوبے:
ترقی یافتہ قوموں اور زوال پذیر قوموں کے درمیان ایک واضح فرق یہ ہے کہ ایک طرف ہم صرف خواب دیکھتے ہیں۔ ہم بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں، مثالی معاشروں کے خواب دیکھتے ہیں، اور ماضی کی عظمتوں کو یاد کر کے فخر محسوس کرتے ہیں۔ لیکن ان خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے ہمیں ٹھوس منصوبے بنانے، ان پر عمل درآمد کرنے اور طویل المدتی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ ہمارے خواب محض زبانی دعوؤں یا نعروں تک محدود رہتے ہیں۔
اس کے برعکس، ترقی یافتہ قومیں ہر خواب کو ایک عملی منصوبے کی شکل دیتی ہیں۔ ان کے پاس وژن ہوتا ہے، لیکن اس وژن کو حاصل کرنے کے لیے مختصر، درمیانے اور طویل مدتی اہداف کا تعین کیا جاتا ہے۔ ہر منصوبے کے لیے بجٹ مختص کیا جاتا ہے، وسائل کا بندوبست کیا جاتا ہے، اور اس پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے باقاعدہ ٹیمیں کام کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے خواب حقیقت بنتے ہیں، جبکہ ہمارے خواب محض “کاش” اور “اگر ایسا ہوتا” کی بازگشت میں گم ہو جاتے ہیں۔
2. ہم صرف دعائیں کرتے رہے اور وہ محنت:
یہ نکتہ کسی بھی طور پر دعا کی اہمیت کو کم نہیں کرتا، دعا بلاشبہ ایک مسلمان کے لیے عبادت کا حصہ اور روحانی قوت کا سرچشمہ ہے۔ لیکن یہ متن ہمیں اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ صرف دعا کرنا کافی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عملی محنت اور جدوجہد بھی ناگزیر ہے۔ ہم اکثر اپنی ناکامیوں یا پسماندگی کو تقدیر کا حصہ سمجھ کر یا محض دعاؤں پر اکتفا کر کے خود کو مطمئن کر لیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سب کچھ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا یا کوئی غیبی مدد آ جائے گی۔
دوسری طرف، ترقی یافتہ قومیں اور افراد یہ جانتے ہیں کہ کامیابی کا واحد راستہ مسلسل اور سخت محنت ہے۔ وہ اپنے اہداف کے حصول کے لیے دن رات ایک کرتے ہیں۔ وہ مسائل کا تجزیہ کرتے ہیں، حل تلاش کرتے ہیں، اور عمل کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک محنت، استقامت اور جدوجہد ہی وہ کلید ہے جو ترقی کے دروازے کھولتی ہے۔ وہ دعا اور محنت کے توازن کو سمجھتے ہیں؛ دعا اللہ پر بھروسے کی علامت ہے، مگر محنت اس بھروسے کو عملی شکل دیتی ہے۔
3. ہم تقاریر کرتے رہے اور وہ تحقیق:
یہ شاید سب سے اہم فرق ہے جس نے ہمیں عالمی سطح پر پیچھے دھکیل دیا۔ ہمارے ہاں علمی اجتماعات میں، سیاسی جلسوں میں اور میڈیا پر طویل اور پرجوش تقاریر کی جاتی ہیں۔ ہم اپنے مسائل پر گھنٹوں گفتگو کر سکتے ہیں، ان کے اسباب بیان کر سکتے ہیں، اور دوسروں کو قصوروار ٹھہرا سکتے ہیں۔ لیکن عملی طور پر، ہم تحقیق اور تجزیے کے میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ ہمارے تعلیمی ادارے، جامعات اور تھنک ٹینکس حقیقی تحقیق میں سرمایہ کاری نہیں کرتے۔ ہمارا زور زبانی جمع خرچ اور سطحی دلائل پر رہتا ہے۔
ترقی یافتہ قومیں اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ کسی بھی شعبے میں حقیقی ترقی تحقیق اور ترقی (Research & Development – R&D) کے بغیر ممکن نہیں۔ وہ اپنی جامعات میں، صنعتی اداروں میں اور دفاعی شعبے میں اربوں ڈالر تحقیق پر خرچ کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ آج کی تحقیق کل کی ٹیکنالوجی اور مستقبل کی قیادت کی بنیاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر شعبے میں نئے افق تلاش کرتے ہیں، نئی ایجادات کرتے ہیں، اور اپنے مسائل کے پائیدار حل تلاش کرتے ہیں۔ تحقیق انہیں اپنی غلطیوں سے سیکھنے، کمزوریوں کو دور کرنے اور مسلسل بہتر ہونے کا موقع دیتی ہے۔ یہی بنیادی فرق ہے کسی بھی ترقی یافتہ اور زوال پذیر قوم میں۔
امریکہ کا دفاعی بجٹ اور ہمارا تیل سے فخر:
متن میں امریکہ کے سالانہ 900 بلین ڈالر دفاع پر خرچ کرنے کا ذکر ہے، جو کہ ایک حیران کن حقیقت ہے۔ یہ رقم ان کی دفاعی صنعت، تحقیق و ترقی، اور فوجی قوت کی مضبوطی پر خرچ ہوتی ہے۔ یہ انہیں دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت بناتی ہے اور انہیں عالمی سطح پر ایک غالب حیثیت فراہم کرتی ہے۔ وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اگر آپ کے پاس بہترین دفاعی صلاحیت نہیں ہے تو آپ کی اقتصادی ترقی یا کوئی بھی دوسری کامیابی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
اس کے برعکس، ہمارے پاس (امتِ مسلمہ کے پاس) تیل جیسے قدرتی وسائل کی دولت موجود ہے۔ ہم اکثر اس تیل کی دولت پر فخر محسوس کرتے ہیں اور اسے اپنی طاقت کا مظہر سمجھتے ہیں۔ لیکن متن میں ایک تلخ سچائی بیان کی گئی ہے: “ہمارے پاس تیل ہے لیکن تیل سے عقل نہیں خریدی جا سکتی۔” یہ سچائی اس بات پر زور دیتی ہے کہ محض قدرتی وسائل یا مالی دولت پائیدار ترقی اور خود مختاری کی ضمانت نہیں۔ حقیقی طاقت علم، تحقیق، تکنیکی مہارت اور خود انحصاری میں پوشیدہ ہے۔ اگر ہم اپنی دولت کو عقل، علم اور تحقیق میں سرمایہ کاری نہیں کریں گے تو یہ دولت ہمیں بیرونی طاقتوں پر انحصار سے نہیں بچا سکے گی۔
ترقی یافتہ اور زوال پذیر قوم میں بنیادی فرق:
ترقی یافتہ اور زوال پذیر قوم کے درمیان بنیادی فرق ان کی سوچ، ترجیحات اور عمل میں پنہاں ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ قومیں:
- بصیرت اور منصوبہ بندی پر یقین رکھتی ہیں۔
- سخت محنت اور استقامت کو اپنا شعار بناتی ہیں۔
- تحقیق و ترقی اور سائنسی جدت کو اپنی ترقی کی بنیاد بناتی ہیں۔
- دفاعی اور تکنیکی خود مختاری کو یقینی بناتی ہیں۔
اس کے برعکس، زوال پذیر قومیں اکثر:
- خوابوں اور خواہشات میں گم رہتی ہیں، عملی منصوبوں سے گریز کرتی ہیں۔
- دعا پر انحصار کرتی ہیں، محنت اور جدوجہد سے پہلو تہی کرتی ہیں۔
- تقاریر اور زبانی جمع خرچ پر زور دیتی ہیں، تحقیق اور تجزیے سے گریز کرتی ہیں۔
- ظاہری شان و شوکت اور عارضی کامیابیوں پر فخر کرتی ہیں، بنیادی ڈھانچے اور فکری ترقی کو نظر انداز کرتی ہیں۔
یہ فرق ہی کسی بھی قوم کے عروج یا زوال کا تعین کرتا ہے۔ یہ فرق ہی انہیں آگے لے جاتا ہے اور ہمیں پیچھے رکھتا ہے۔
سوچ کا نقشہ بدلنے کی ضرورت:
متن کا آخری جملہ اس تمام بحث کا نچوڑ ہے: “اگر ایک طیارہ ہماری سب سے بڑی عمارت سے مہنگا ہو سکتا ہے، تو شاید ہمیں اپنی سوچ کا نقشہ بدلنے کی ضرورت ہے۔” یہ ایک پکار ہے کہ ہم اپنی ترجیحات کا دوبارہ جائزہ لیں، اپنی سوچ کو وسعت دیں، اور عملی اقدامات کی طرف بڑھیں۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ حقیقی قوت بلند و بالا عمارات میں نہیں بلکہ مضبوط دفاعی صلاحیت، سائنسی و تکنیکی برتری، معیاری تعلیم، اور فکری آزادی میں ہے۔ اگر امتِ مسلمہ کو دوبارہ عالمی سطح پر اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا ہے، تو اسے اپنے وسائل کو حکمت عملی کے ساتھ استعمال کرنا ہوگا، تحقیق و ترقی میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی، اور اپنی نسلوں کو علم و ہنر سے آراستہ کرنا ہوگا۔ ہمیں خواب دیکھنے کے بجائے منصوبے بنانے ہوں گے، صرف دعائیں کرنے کے بجائے محنت کرنی ہوگی، اور تقاریر کرنے کے بجائے تحقیق کرنی ہوگی۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں زوال سے نکال کر ترقی کے نئے افق کی طرف لے جا سکتا ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سیکھیں اور مستقبل کے لیے ایک نئے اور حقیقی وژن کو اپنائیں۔