
پشاور/باجوڑ (29 جولائی 2025) – خیبرپختونخوا کے ضلع باجوڑ میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ایک فوجی آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ہے جس کے بعد علاقے میں کرفیو بھی نافذ کر دیا گیا ہے۔ یہ پیشرفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب صوبے کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور، جو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تعلق رکھتے ہیں، مسلسل یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ خیبرپختونخوا کی سرزمین پر کسی قسم کا کوئی نیا فوجی آپریشن نہیں ہونے دیں گے۔ آج انہی کے دستخط سے باجوڑ میں اس آپریشن کا آغاز اور کرفیو کا نفاذ ایک سنگین سوال اٹھا رہا ہے کہ کیا صوبائی حکومت نے اپنے اس مؤقف سے یو ٹرن لے لیا ہے یا پھر حالات نے انہیں ایسا فیصلہ کرنے پر مجبور کیا ہے؟ یہ صورتحال نہ صرف سیاسی حلقوں میں بلکہ عوام میں بھی تشویش اور بے چینی پیدا کر رہی ہے۔
وزیراعلیٰ گنڈاپور کا سابقہ مؤقف: ‘فوجی آپریشن نہیں ہونے دیں گے’
علی امین گنڈاپور نے خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے بارہا یہ واضح کیا تھا کہ ان کی حکومت صوبے میں امن و امان کی بحالی کے لیے فوجی آپریشن کی بجائے مذاکرات اور عوامی حمایت کی حکمت عملی پر یقین رکھتی ہے۔ ان کا یہ مؤقف پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے اس بیانیے سے ہم آہنگ تھا جس میں وہ قبائلی علاقوں میں سابقہ فوجی آپریشنز کے نتائج پر سوال اٹھاتے رہے ہیں۔ گنڈاپور کا اصرار تھا کہ دہشت گردی کا مسئلہ طاقت کے استعمال سے حل نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے ایک جامع اور عوامی حمایت پر مبنی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے متعدد عوامی اجتماعات اور پریس کانفرنسوں میں کہا تھا کہ “ہم خیبرپختونخوا کو مزید جنگ کا میدان نہیں بننے دیں گے،” اور “کسی کو بھی صوبے میں فوجی آپریشن کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، خاص طور پر قبائلی اضلاع میں جہاں کے لوگ پہلے ہی بہت کچھ بھگت چکے ہیں۔” اس بیانیے نے صوبے کے عوام، خاص طور پر قبائلی اضلاع کے مکینوں میں امید پیدا کی تھی کہ شاید اب انہیں مزید فوجی کارروائیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، اور امن کی ایک نئی صبح طلوع ہوگی۔ گنڈاپور کا یہ مؤقف ان کے سیاسی منشور کا ایک اہم ستون بھی بن چکا تھا۔
باجوڑ میں آپریشن کا آغاز اور کرفیو کا نفاذ
آج کی خبروں کے مطابق، خیبرپختونخوا کے شمال مغربی ضلع باجوڑ میں سیکیورٹی فورسز نے ایک نیا ‘فوجی آپریشن باجوڑ’ شروع کر دیا ہے۔ اس آپریشن کے آغاز کے ساتھ ہی ضلع بھر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے، جس کے تحت لوگوں کی نقل و حرکت محدود کر دی گئی ہے اور تمام تجارتی سرگرمیاں معطل ہو گئی ہیں۔ حکام کی جانب سے فوری طور پر آپریشن کی نوعیت، اس کے اہداف اور دورانیے کے بارے میں کوئی تفصیلی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ تاہم، ذرائع کے مطابق یہ آپریشن علاقے میں دہشت گردوں کے مبینہ ٹھکانوں کو نشانہ بنانے اور امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
باجوڑ ایک قبائلی ضلع ہے جس کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔ یہ علاقہ ماضی میں بھی عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے اور یہاں سیکیورٹی فورسز نے کئی بڑے آپریشنز کیے ہیں۔ حالیہ عرصے میں، خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں دوبارہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس کے بعد حکومتی حلقوں پر دباؤ بڑھا تھا کہ وہ اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔ باجوڑ میں کرفیو کے نفاذ سے علاقے کے عوام میں خوف اور غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے، کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ یہ آپریشن طویل اور شدید ہو سکتا ہے، جس کے نتیجے میں انہیں نقل مکانی اور دیگر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دستخط کا معمہ: گنڈاپور کے وعدے اور عملی اقدامات
سب سے زیادہ پریشان کن اور سوال طلب بات یہ ہے کہ باجوڑ میں اس ‘عسکری کارروائی باجوڑ’ کا حکم وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے دستخط سے جاری ہوا ہے۔ یہ وہی وزیراعلیٰ ہیں جو مسلسل یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ ‘ہم خیبر پختونخوا میں فوجی آپریشن نہیں ہونے دیں گے’۔ ان کے دستخط سے جاری ہونے والا یہ حکم نامہ ان کے سابقہ بیانات کے بالکل برعکس ہے۔ اس صورتحال نے سیاسی مبصرین کو الجھن میں ڈال دیا ہے کہ کیا وزیراعلیٰ پر مرکزی حکومت کی جانب سے دباؤ تھا، یا پھر صوبے میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال نے انہیں اپنا مؤقف تبدیل کرنے پر مجبور کیا ہے؟
ایک طرف، ‘علی امین گنڈاپور کا موقف’ تھا کہ مذاکرات اور عوامی اعتماد سے ‘کے پی کے میں امن و امان’ بحال کیا جائے گا۔ دوسری طرف، آج ‘باجوڑ کرفیو’ اور آپریشن کا آغاز ان کے دستخط سے ہو رہا ہے، جو کہ واضح طور پر طاقت کے استعمال پر مبنی حکمت عملی ہے۔ اس تضاد کی وضاحت نہ ہونے کی وجہ سے ‘وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا’ کی ساکھ پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ کیا پی ٹی آئی حکومت خیبر پختونخوا میں امن کی اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کر چکی ہے؟ یا یہ ایک ہنگامی صورتحال کا نتیجہ ہے جسے کسی اور طریقے سے ہینڈل نہیں کیا جا سکتا تھا؟
سیاسی اور عوامی ردعمل
باجوڑ آپریشن کے آغاز پر سیاسی حلقوں اور عوامی سطح پر ملا جلا ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے وزیراعلیٰ گنڈاپور کے اس اقدام کو ان کے سابقہ بیانات کے منافی قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت صرف دعوے کرتی رہی ہے لیکن جب عملی اقدامات کا وقت آیا تو انہوں نے بھی وہی راستہ اختیار کیا جو ماضی کی حکومتیں اختیار کرتی رہی ہیں۔ کئی حلقوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ وزیراعلیٰ کی کمزوری کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے وعدوں پر قائم نہیں رہ سکے۔
دوسری جانب، کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امن و امان کی صورتحال اتنی خراب ہو چکی تھی کہ صوبائی حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ فوجی آپریشن کا راستہ اختیار کرے۔ ان کے خیال میں یہ ایک ہنگامی قدم ہے جو صوبے کو دہشت گردی سے بچانے کے لیے ضروری تھا۔ تاہم، ‘باجوڑ میں آپریشن’ کے نتائج اور اس کے طویل المدتی اثرات پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے۔ مقامی آبادی، خاص طور پر ‘قبائلی اضلاع میں امن’ کے خواہاں لوگ، اس آپریشن پر ملے جلے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ امن کی بحالی کے لیے پرامید ہیں جبکہ دیگر اپنے گھروں اور روزگار کے بارے میں فکر مند ہیں۔
باجوڑ کا تاریخی تناظر اور سیکیورٹی چیلنجز
باجوڑ کی تاریخ عسکریت پسندی اور سیکیورٹی چیلنجز سے بھری پڑی ہے۔ یہ علاقہ ماضی میں شدت پسندوں کے مضبوط گڑھ کے طور پر جانا جاتا تھا، اور یہاں سے پاکستان اور افغانستان دونوں میں حملے کیے جاتے تھے۔ پاک فوج نے اس علاقے میں کئی بڑے ‘فوجی آپریشن کے پی’ کیے ہیں جس کے بعد امن کی ایک حد تک بحالی ممکن ہوئی تھی۔ تاہم، حالیہ عرصے میں افغانستان کی صورتحال میں تبدیلی اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی سرگرمیوں میں اضافے کے بعد باجوڑ سمیت خیبرپختونخوا کے سرحدی اضلاع میں ‘دہشت گردی کے خلاف جنگ’ دوبارہ شدت اختیار کر گئی ہے۔
‘خیبر پختونخوا سیکیورٹی’ رپورٹس کے مطابق، عسکریت پسندوں نے دوبارہ قبائلی اضلاع میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے، جس کے نتیجے میں سیکیورٹی فورسز اور عام شہریوں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس صورتحال نے صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت دونوں پر دباؤ بڑھا دیا تھا کہ وہ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی اپنائیں۔ باجوڑ میں ‘فوجی آپریشن کے پی’ کا آغاز انہی بڑھتے ہوئے دباؤ اور زمینی حقائق کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔
حکومت کی ممکنہ توجیہات
وزیراعلیٰ گنڈاپور اور صوبائی حکومت کی جانب سے اس آپریشن کی توجیہات پیش کی جا سکتی ہیں جو ان کے سابقہ مؤقف سے بظاہر متصادم نہیں۔ ممکنہ توجیہات میں درج ذیل شامل ہو سکتی ہیں:
- ہدف پر مبنی کارروائی: یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک مکمل فوجی آپریشن نہیں بلکہ چند مخصوص دہشت گرد گروہوں یا ٹھکانوں کے خلاف ہدف پر مبنی (intelligence-based) کارروائی ہے، جو عوامی سطح پر بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا سبب نہیں بنے گی۔
- خفیہ اطلاعات: حکومت یہ موقف اپنا سکتی ہے کہ انہیں ایسی خفیہ اطلاعات ملی تھیں جن کے مطابق باجوڑ میں دہشت گردوں کی موجودگی اور ان کی جانب سے بڑے حملوں کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی، جس کے پیش نظر فوری کارروائی ناگزیر ہو گئی تھی۔
- صوبائی خودمختاری کا دفاع: یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ یہ آپریشن صوبائی حکومت کی مکمل منظوری اور نگرانی میں ہو رہا ہے تاکہ یہ تاثر نہ ملے کہ وفاق نے صوبائی خودمختاری کو نظر انداز کیا ہے۔
- عوامی تحفظ کی اولین ترجیح: حکومت یہ باور کرانے کی کوشش کر سکتی ہے کہ شہریوں کے جان و مال کا تحفظ ان کی اولین ترجیح ہے، اور جب تمام دیگر راستے بند ہو گئے تو مجبوری میں یہ قدم اٹھایا گیا۔
- سابقہ بیانات کی تشریح: وزیراعلیٰ اپنے سابقہ بیانات کی یہ تشریح پیش کر سکتے ہیں کہ ان کا مطلب بڑے پیمانے پر اور غیر ضروری فوجی آپریشنز سے تھا، جبکہ موجودہ کارروائی ایک محدود اور انتہائی ضروری سیکیورٹی اقدام ہے۔
اثرات اور مستقبل کی راہیں
باجوڑ میں فوجی آپریشن اور کرفیو کا نفاذ خیبرپختونخوا میں ‘امن و امان کی صورتحال’ کے لیے ایک نیا امتحان ہے۔ اس کے نتائج نہ صرف علاقے کے عوام کی زندگیوں پر اثر انداز ہوں گے بلکہ صوبائی حکومت کی آئندہ کی حکمت عملی اور ‘پاکستان میں فوجی آپریشن’ کے بارے میں قومی مباحث پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
اگر یہ آپریشن کامیاب ہوتا ہے اور علاقے میں ‘خیبر پختونخوا میں امن’ بحال ہوتا ہے تو یہ وزیراعلیٰ گنڈاپور کے لیے ایک بڑی کامیابی ہو سکتی ہے، لیکن اگر اس کے منفی نتائج برآمد ہوتے ہیں یا یہ طویل عرصے تک جاری رہتا ہے تو ان کی ساکھ اور ‘پی ٹی آئی حکومت خیبر پختونخوا’ کی کارکردگی پر مزید سوالات اٹھیں گے۔
اس صورتحال میں ضروری ہے کہ حکومت شفافیت کو یقینی بنائے اور عوام کو آپریشن کے مقاصد اور اس کے ممکنہ دورانیے کے بارے میں آگاہ کرتی رہے۔ قبائلی اضلاع کے عوام پہلے ہی بہت سی مشکلات کا شکار ہیں، اور انہیں مزید کسی بڑی آزمائش کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ مستقبل کی راہیں اس بات پر منحصر ہوں گی کہ یہ ‘باجوڑ نیوز’ کس سمت میں کروٹ لیتی ہے اور حکومت کس حد تک اپنے وعدوں اور عملی اقدامات کے درمیان توازن قائم کر پاتی ہے۔
ایس ای او کے لیے کلیدی الفاظ (SEO Keywords)
یہ خبر مندرجہ ذیل کلیدی الفاظ کے ساتھ ایس ای او کے لیے آپٹمائز کی گئی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد تک رسائی حاصل ہو سکے:
- باجوڑ آپریشن
- خیبر پختونخوا فوجی آپریشن
- علی امین گنڈاپور
- کرفیو باجوڑ
- باجوڑ میں آپریشن
- وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا
- کے پی کے میں امن و امان
- عسکری کارروائی باجوڑ
- گنڈاپور کا موقف
- پی ٹی آئی حکومت خیبر پختونخوا
- باجوڑ کرفیو خبر
- خیبر پختونخوا سیکیورٹی
- پاکستان میں فوجی آپریشن
- دہشت گردی کے خلاف جنگ
- خیبر پختونخوا میں امن
- قبائلی علاقہ جات میں آپریشن
- باجوڑ نیوز
- علی امین گنڈاپور کے دستخط
- فوجی آپریشن کے پی
- عمران خان کا وژن (اگر متعلقہ ہو)
- خیبر پختونخوا حکومت کا فیصلہ
- امن و امان کی صورتحال
- قبائلی اضلاع میں امن
- باجوڑ کی صورتحال
- آپریشن باجوڑ
- کے پی سیکیورٹی صورتحال
- پاکستان میں کرفیو
- وزیر اعلی گنڈاپور
- خیبر پختونخوا میں آپریشن
- باجوڑ تازہ خبر
اختتامیہ
باجوڑ میں فوجی آپریشن کا آغاز اور کرفیو کا نفاذ خیبرپختونخوا کے سیاسی اور سیکیورٹی منظرنامے میں ایک نیا اور اہم موڑ ہے۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے سابقہ بیانات اور موجودہ عملی اقدام کے درمیان بظاہر تضاد نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ صوبائی حکومت اس صورتحال کو کس طرح سنبھالتی ہے اور کیا وہ اپنے سابقہ مؤقف اور موجودہ مجبوریوں کے درمیان کوئی قابل قبول توجیہ پیش کر پاتی ہے۔ ‘باجوڑ میں امن’ اور ‘خیبر پختونخوا میں سیکیورٹی’ کی بحالی سب کی اولین ترجیح ہونی چاہیے، چاہے اس کے لیے کوئی بھی راستہ اختیار کرنا پڑے۔ تاہم، اس راستے کا انتخاب جمہوری اصولوں اور عوامی اعتماد کے ساتھ ہونا انتہائی ضروری ہے تاکہ پائیدار امن کی بنیاد رکھی جا سکے۔