نئی دہلی / نیویارک: نیویارک ٹائمز کی ایک سنسنی خیز رپورٹ نے 1960 کی دہائی کے وسط میں سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (CIA) کے ایک انتہائی خفیہ اور خطرناک مشن پر سے پردہ اٹھایا ہے، جس کے تحت بھارت کی بلند ترین چوٹیوں میں سے ایک، نندا دیوی (Nanda Devi) پر ایک جوہری توانائی سے چلنے والا نگرانی کا آلہ نصب کیا جانا تھا۔ یہ آلہ 1965 میں برفانی طوفان کے دوران لاپتہ ہو گیا تھا اور تقریباً چھ دہائیاں گزرنے کے بعد بھی اس کا سراغ نہیں لگایا جا سکا، جو اب بھی ہمالیہ اور دریائے گنگا کے آبی وسائل کے لیے ایک ممکنہ ماحولیاتی خطرہ ہے۔
خفیہ مشن کا مقصد: چین پر جاسوسی
یہ مشن 1965 میں اس وقت شروع کیا گیا جب امریکہ اور بھارت دونوں چین کے بڑھتے ہوئے جوہری اور میزائل پروگراموں کے بارے میں شدید خدشات رکھتے تھے۔
- آلہ کی نوعیت: سی آئی اے کا مقصد نندا دیوی کی چوٹی پر ایک جوہری توانائی سے چلنے والا حساس آلہ نصب کرنا تھا جو چین کے میزائل ٹیسٹ کی معلومات، خاص طور پر چین کے شِن جیانگ صوبے میں واقع لُوپ نُور ٹیسٹ سائٹ سے نکلنے والے سگنلز اور تابکاری شعاعوں کی نگرانی کر سکے۔
- جوہری ایندھن: اس آلہ کو مسلسل توانائی فراہم کرنے کے لیے اس میں پلوٹونیم-۲۳۸ (Plutonium-238) کا ایک کیپسول موجود تھا، جو انتہائی خطرناک اور طویل عرصے تک تابکار رہنے والا مادہ ہے۔
1965 کا سانحہ: آلہ کا لاپتہ ہونا
1965 کے موسم خزاں میں، بھارتی کوہ پیماؤں اور سی آئی اے کے اہلکاروں پر مشتمل ایک مشترکہ ٹیم اس آلہ کو نندا دیوی کی چوٹی کے قریب نصب کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ تاہم، شدید برفانی طوفان اور غیر متوقع موسمی حالات نے مشن کو تباہ کر دیا۔
- اقتدار سے باہر: طوفان کی شدت کے پیش نظر، ٹیم کو آلہ کو چوٹی پر چھوڑ کر واپس لوٹنا پڑا۔ چوٹی سے اترنے سے قبل، ٹیم نے احتیاطی تدابیر کے طور پر آلہ کو پتھروں کے نیچے ایک محفوظ جگہ پر زنجیروں سے باندھنے کی کوشش کی۔
- گمشدگی: جب اگلی مہم کی ٹیم 1966 میں آلہ کو دوبارہ حاصل کرنے پہنچی تو انہیں نہ صرف آلہ، بلکہ اس کے تمام پرزے اور پلوٹونیم کیپسول بھی غائب ملے۔ شدید برف باری اور تودے گرنے کی وجہ سے یہ آلہ کئی سو فٹ نیچے کھائی میں کہیں دب گیا تھا۔
تابکاری خطرات اور ماحولیاتی خدشات
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ اس بات پر زور دیتی ہے کہ اس گمشدہ پلوٹونیم کیپسول کا خطرہ آج بھی برقرار ہے۔
- دریائے گنگا کا پانی: نندا دیوی چوٹی دریائے گنگا کے معاون دریاؤں کا منبع ہے۔ خدشہ ہے کہ برف کے پگھلنے کے ساتھ، یہ تابکار کیپسول چٹانوں اور مٹی کے تہوں سے نکل کر آبی ذخائر میں شامل ہو سکتا ہے، جس سے وسیع علاقے میں پینے کا پانی آلودہ ہو جائے گا۔
- طویل مدتی اثرات: پلوٹونیم-۲۳۸ کی نصف حیات (Half-life) تقریباً 88 سال ہے، یعنی اسے تابکاری مکمل طور پر ختم ہونے میں سینکڑوں سال لگ سکتے ہیں۔ یہ خطرہ صرف مقامی آبادی نہیں بلکہ ہندوستان کے ایک بڑے حصے کو متاثر کر سکتا ہے جو دریائے گنگا کے پانی پر انحصار کرتے ہیں۔
مسلسل تلاش اور سرکاری بیانات
حالیہ برسوں میں، بھارتی حکومت نے اس گمشدہ جوہری آلہ کی تلاش کے لیے متعدد مہمات شروع کیں، لیکن تمام ناکام رہیں۔ حکومت نے ہمیشہ عوام کو یقین دلایا ہے کہ آبی ذرائع میں کسی قسم کی تابکاری آلودگی نہیں پائی گئی ہے۔ تاہم، ماحولیاتی ماہرین اور مقامی کمیونٹیز آج بھی اس لاپتہ “وقت کے بم” پر گہری تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
