
اسلام آباد (بیورو رپورٹ)
پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر، نشانِ امتیاز (ملٹری) نے حال ہی میں ملک کی مختلف جامعات کے وائس چانسلرز، پرنسپلز اور سینئر اساتذہ کرام سے ایک اہم اور جامع بات چیت کی۔ یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب پاکستان کو اندرونی و بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے اور قوم کی تعمیر میں تعلیمی اداروں اور اساتذہ کا کردار پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو گیا ہے۔ اس بات چیت میں آرمی چیف نے نہ صرف اساتذہ کے مقام و مرتبے کو اجاگر کیا بلکہ قومی اتحاد، کشمیر، پانی کے حقوق، دہشت گردی اور ایک مضبوط و مستحکم پاکستان کے وژن پر بھی کھل کر اظہار خیال کیا۔ ان کے ریمارکس اور خیالات نے شرکاء پر گہرا اثر چھوڑا اور یہ قومی بیانیے کی تشکیل میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ تفصیلی پوسٹ آرمی چیف کے خطاب کے اہم نکات، ان کے مضمرات اور پاکستان کے مستقبل کے لیے ان کی اہمیت پر روشنی ڈالے گی۔
اساتذہ کرام: پاکستان کا سب سے بڑا سرمایہ
چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے اپنے خطاب کا آغاز اساتذہ کے مقام و مرتبے کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے فرمایا: “اساتذہ کرام پاکستان کا سب سے بڑا سرمایہ ہیں۔” یہ الفاظ محض رسمی نہیں بلکہ ایک گہرے اعتراف پر مبنی ہیں کہ کسی بھی قوم کی ترقی اور خوشحالی میں اساتذہ کا کردار بنیادی ہوتا ہے۔ اساتذہ ہی وہ معمار ہیں جو نسلوں کی تربیت کرتے ہیں، انہیں علم کی روشنی سے منور کرتے ہیں اور ان میں اخلاقی اقدار اور حب الوطنی کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔ آرمی چیف نے اپنی ذاتی زندگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: “میں آج جو کچھ بھی ہوں، اپنے والدین اور اساتذہ کرام کی وجہ سے ہوں۔” یہ اعتراف اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ تعلیم اور تربیت کی بنیاد کتنی مضبوط ہونی چاہیے اور اس میں اساتذہ کا کتنا بڑا حصہ ہوتا ہے۔
انہوں نے اساتذہ کو پاکستان کی اگلی نسلوں کی کردار سازی کی ذمہ داری یاد دلائی۔ ان کا کہنا تھا کہ “پاکستان کی اگلی نسلوں کی کردار سازی اساتذہ کرام کی ذمہ داری ہے۔” یہ ایک اہم پیغام ہے کہ اساتذہ کا کام صرف نصابی علم کی فراہمی نہیں بلکہ نوجوانوں میں اخلاقی جرات، دیانتداری، محنت اور حب الوطنی جیسے اوصاف پیدا کرنا بھی ہے۔ ایک مضبوط قوم کی بنیاد مضبوط کردار پر ہوتی ہے، اور یہ کردار سازی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اساتذہ کو یہ بھی ہدایت کی گئی کہ “آپ (اساتذہ) نے پاکستان کی کہانی اپنی اگلی نسلوں کو بتانی ہے۔” یہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ نوجوان نسل کو اپنے ملک کی تاریخ، جدوجہد، قربانیوں اور کامیابیوں سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ اپنی شناخت پر فخر محسوس کریں اور ملک کے مستقبل کے لیے پرعزم رہیں۔
معرکہ حق: قومی اتحاد اور اللہ کی مدد
آرمی چیف نے “معرکہ حق” کا ذکر کرتے ہوئے قومی اتحاد اور اللہ تعالیٰ کی مدد پر زور دیا۔ انہوں نے فرمایا: “معرکہ حق میں اللہ تعالیٰ نے ہر طرح سے پاکستان کی مدد کی۔” یہ بیان نہ صرف ماضی کی کامیابیوں کو اللہ کی نصرت سے جوڑتا ہے بلکہ مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بھی قوم کو حوصلہ دیتا ہے۔ “معرکہ حق” کی اصطلاح وسیع مفہوم رکھتی ہے، جس میں ملک کی بقا، سلامتی اور نظریاتی سرحدوں کے دفاع کی تمام جدوجہد شامل ہے۔
انہوں نے مزید کہا: “معرکہ حق اس بات کا ثبوت ہے کہ جب پوری قوم ایک آہنی دیوار بن جائے تو دنیا کی کوئی طاقت اُسے گرا نہیں سکتی۔” یہ الفاظ قومی یکجہتی، اتحاد اور عزم کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ جب ایک قوم اپنے اختلافات بھلا کر ایک مقصد کے لیے متحد ہو جاتی ہے، تو وہ ناقابل تسخیر بن جاتی ہے۔ یہ پیغام نہ صرف مسلح افواج کے لیے ہے بلکہ پوری قوم کے لیے ہے کہ اندرونی اختلافات کو ختم کر کے ایک مضبوط اور متحد محاذ بنایا جائے تاکہ بیرونی خطرات کا مقابلہ کیا جا سکے۔ یہ بیانیہ قوم کو یہ احساس دلاتا ہے کہ ان کی طاقت ان کے اتحاد میں پنہاں ہے اور اسی کے ذریعے وہ ہر مشکل پر قابو پا سکتے ہیں۔
کشمیر: کوئی سودا ممکن نہیں، ہندوستان جان لے
کشمیر کا مسئلہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک بنیادی ستون ہے، اور آرمی چیف نے اس پر اپنے غیر متزلزل موقف کا اظہار کیا۔ انہوں نے واضح الفاظ میں فرمایا: “کشمیر کا کوئی بھی سودا ممکن نہیں، ہم کبھی بھی کشمیر کو نہیں بھول سکتے۔” یہ بیان کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت اور پاکستان کے اصولی موقف کی توثیق کرتا ہے۔ یہ اس بات کا اعادہ ہے کہ پاکستان کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کا حامی ہے اور اس مسئلے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
انہوں نے ہندوستان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: “ہندوستان جان لے کہ پاکستان کشمیر کو کبھی نہیں چھوڑے گا۔” یہ ایک دو ٹوک پیغام ہے کہ کشمیر پاکستان کی ریڈ لائن ہے اور اس پر کسی بھی قسم کی بھارتی اجارہ داری قبول نہیں کی جائے گی۔ آرمی چیف نے مزید کہا: “ہندوستان نے کئی دہائیوں سے کشمیر کے مسئلے کو دبانے کی کوشش کی مگر وہ ناکام ہو چکا ہے، اب یہ ممکن نہیں رہا۔” یہ ریمارکس اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کی اہمیت بڑھ رہی ہے اور بھارت کی جبر و ستم کی پالیسیاں اب مزید چھپائی نہیں جا سکتیں۔ انہوں نے کشمیر کو ایک عالمی سطح کا مسئلہ قرار دیا، جو کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی برادری کی ذمہ داریوں کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ پاکستان کے اس موقف کو تقویت دیتا ہے کہ کشمیر صرف پاکستان اور بھارت کا دو طرفہ مسئلہ نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے جس کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونا چاہیے۔
پانی: پاکستان کی ریڈ لائن اور بنیادی حق
پانی کا مسئلہ پاکستان کے لیے ایک انتہائی اہم اور حساس مسئلہ ہے۔ آرمی چیف نے پانی کے مسئلے کو پاکستان کی “ریڈ لائن” قرار دیتے ہوئے اس کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے فرمایا: “پانی پاکستان کی ریڈ لائن ہے اور 24 کروڑ پاکستانیوں کے اس بنیادی حق پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔” یہ بیان پاکستان کے پانی کے حقوق کے تحفظ کے لیے مسلح افواج کے عزم کو ظاہر کرتا ہے، خاص طور پر جب بھارت کی طرف سے دریائی پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ پانی کی قلت پاکستان کی زراعت اور معیشت کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے، اور اس پر آرمی چیف کا یہ دو ٹوک موقف قوم کو یہ یقین دلاتا ہے کہ ان کے بنیادی حقوق کا دفاع کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا: “پاکستان، ہندوستان کی اجارہ داری کبھی قبول نہیں کرے گا۔” یہ پیغام بھارت کو واضح کرتا ہے کہ پاکستان اپنے پانی کے حقوق پر کسی بھی قسم کی بھارتی بالادستی یا کنٹرول کو برداشت نہیں کرے گا اور اس کے دفاع کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے گا۔ یہ بیان نہ صرف پانی کی قلت کے مسئلے کی سنگینی کو اجاگر کرتا ہے بلکہ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ پاکستان اپنے وسائل کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔
دہشت گردی: ہندوستان کا اندرونی مسئلہ اور بلوچستان کی صورتحال
دہشت گردی پاکستان کو درپیش ایک بڑا چیلنج ہے، اور آرمی چیف نے اس پر بھی اپنا موقف واضح کیا۔ انہوں نے فرمایا: “دہشت گردی ہندوستان کا اندرونی مسئلہ ہے جس کی بنیادی وجہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر بڑھتا ہوا ظلم اور تعصب پسندی ہے۔ جبکہ کشمیر ایک عالمی سطح کا مسئلہ ہے۔” یہ بیان دہشت گردی کے مسئلے کو بھارت کے اندرونی حالات سے جوڑتا ہے، جہاں اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں، کے ساتھ ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بھارت کی اپنی پالیسیاں خطے میں عدم استحکام کا باعث بن رہی ہیں۔
بلوچستان میں دہشت گردی کے حوالے سے انہوں نے کہا: “بلوچستان میں دہشت گرد فتنہ الہندوستان ہیں، ان کا بلوچوں سے کوئی تعلق نہیں۔” یہ ایک اہم ریمارکس ہے جو بلوچستان میں جاری دہشت گردی کو بیرونی حمایت یافتہ قرار دیتا ہے اور اس کا تعلق مقامی بلوچ عوام سے نہیں جوڑتا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج بلوچستان کے عوام کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا اتحادی سمجھتی ہیں اور بیرونی عناصر کو اس خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کی اجازت نہیں دیں گی۔ یہ بیان بلوچستان میں امن و امان کی بحالی اور ترقی کے لیے حکومت اور مسلح افواج کے عزم کو تقویت دیتا ہے۔
ایک مضبوط ریاست کا وژن: قانون کی حکمرانی اور عوامی فلاح
آرمی چیف نے ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان کے اپنے وژن کو بھی پیش کیا۔ انہوں نے فرمایا: “ہم نے پاکستان کو ایسی مضبوط ریاست بنانا ہے جس میں تمام ادارے قانون کے مطابق، آئین کے تحت، بغیر کسی سیاسی دباؤ، مالی اور ذاتی فائدے کے، عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں۔” یہ ایک جامع وژن ہے جو قانون کی حکمرانی، آئینی بالادستی، اور اداروں کی غیر جانبداری پر زور دیتا ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ریاست کے تمام ستونوں کو ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر صرف اور صرف عوام کی خدمت اور فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا چاہیے۔ یہ ایک ایسے پاکستان کا تصور ہے جہاں احتساب، شفافیت، اور میرٹ کو فروغ دیا جائے تاکہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔
انہوں نے مزید کہا: “جو کوئی بھی ریاست کو کمزور بنانے کا بیانیہ بنانے کی کوشش کرے اُس کی نفی کریں۔” یہ ایک واضح پیغام ہے کہ منفی پروپیگنڈے اور ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کی کوششوں کا مقابلہ کیا جائے، اور قوم کو متحد ہو کر ایسے عناصر کو مسترد کرنا چاہیے۔ یہ بیانیہ قومی سلامتی اور استحکام کے لیے ایک مضبوط دفاعی لائن بنانے کی ضرورت پر زور دیتا ہے، جہاں عوام بھی ریاست کے دفاع میں اپنا کردار ادا کریں۔
شرکاء کا تاثر: وردی کے پیچھے محفوظ دھرتی
آرمی چیف کے خطاب کے بعد سوال جواب سیشن میں شرکاء کا تاثر بھی سامنے آیا، جو اس بات چیت کی کامیابی کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک شریک نے کہا: “یہ جو محفوظ دھرتی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے۔” یہ الفاظ نہ صرف مسلح افواج کی قربانیوں اور ملک کے دفاع میں ان کے کردار کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں بلکہ عوام اور فوج کے درمیان مضبوط رشتے کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔ یہ تاثر اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ قوم اپنی مسلح افواج پر فخر کرتی ہے اور انہیں اپنی حفاظت کا ضامن سمجھتی ہے۔
شرکاء نے مزید کہا: “ہمیں پاکستان اور اپنی مسلح افواج پر فخر ہے اور ہم ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے۔” یہ جملہ قومی یکجہتی اور مسلح افواج کے ساتھ عوام کی غیر متزلزل حمایت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جب قوم اور اس کی مسلح افواج ایک ساتھ کھڑی ہوں تو کوئی بھی چیلنج انہیں شکست نہیں دے سکتا۔ یہ پیغام نہ صرف اندرونی طور پر قوم کو متحد کرتا ہے بلکہ بیرونی دنیا کو بھی یہ واضح کرتا ہے کہ پاکستان ایک مضبوط اور متحد قوم ہے۔
نتیجہ: ایک روشن مستقبل کی جانب
چیف آف آرمی سٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا جامعات کے وائس چانسلرز اور اساتذہ کرام سے خطاب ایک انتہائی اہم اور بروقت اقدام تھا۔ اس خطاب میں انہوں نے اساتذہ کے بنیادی کردار، قومی اتحاد کی اہمیت، کشمیر اور پانی جیسے حساس قومی مسائل پر پاکستان کے غیر متزلزل موقف، دہشت گردی کے بیرونی محرکات، اور ایک مضبوط، آئین و قانون کی حکمرانی والی ریاست کے وژن پر روشنی ڈالی۔ ان کے ریمارکس نے نہ صرف تعلیمی اداروں کو قومی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرنے کی ترغیب دی بلکہ پوری قوم کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک واضح سمت بھی فراہم کی۔
یہ بات چیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ پاکستان کی قیادت قومی بیانیے کی تشکیل میں تعلیمی اداروں کے کردار کو تسلیم کرتی ہے اور انہیں ملک کے مستقبل کے لیے تیار رہنے کی ترغیب دیتی ہے۔ آرمی چیف کے الفاظ میں قومی عزم، حب الوطنی، اور ایک روشن مستقبل کی امید جھلکتی ہے۔ اگر قوم اساتذہ کی رہنمائی میں متحد ہو کر ان اصولوں پر عمل کرے تو پاکستان نہ صرف موجودہ چیلنجز پر قابو پا سکتا ہے بلکہ ایک مضبوط، خوشحال اور پرامن ریاست کے طور پر ابھر سکتا ہے۔ یہ خطاب ایک یاد دہانی ہے کہ پاکستان کا مستقبل اس کی نوجوان نسل، اساتذہ، اور قومی اداروں کے باہمی تعاون اور عزم میں پنہاں ہے۔