
بالآخر پاکستان کی بیوروکریسی بابو کے سب سے طاقتور اور تاریخی گروپ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (سابقہ ڈی ایم جی) کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی گئی ہے۔ وہ گروپ جس نے پاکستان پر اٹھہتر سال تک حکمرانی کی، اب اپنی ارتقائی منزلیں طے کرتے کرتے زوال کی گہرائی میں جا رہا ہے۔
حالیہ دنوں میں وفاقی کابینہ نے ایک تاریخی فیصلہ کرتے ہوئے پرائیویٹ سیکٹر سے ماہر افراد کو پاکستان کی اہم وزارتوں کا سیکرٹری تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اور پھر آٹھ جولائی 2025 کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن — جو پاکستان کی بیوروکریسی کا طاقتور ترین خاموش قلمی ادارہ سمجھا جاتا ہے — نے ایک اشتہار جاری کیا جس نے اس فیصلے کو عملی شکل دے دی۔
اس اشتہار میں درج ہے کہ مندرجہ ذیل وفاقی وزارتوں کے لیے سیکرٹریز کی تقرری براہ راست مارکیٹ سے کی جائے گی:
• وزارت خزانہ
• وزارت پیٹرولیم
• وزارت توانائی
• وزارت منصوبہ بندی
• وزارت صنعت و پیداوار
• وزارت قومی فوڈ سیکیورٹی
• ووکیشنل ایجوکیشن و ٹریننگ
شرائط کچھ یوں ہیں:
• عمر کی حد: ساٹھ سال
• تقرری: دو سال کے پرفارمنس بیسڈ معاہدے پر
• تنخواہ: مارکیٹ سے ہم آہنگ، اندازاً دس سے پندرہ لاکھ روپے ماہانہ
یہ اعلان حیران کن اس لیے ہے کہ انہی وزارتوں میں اس وقت وزیراعظم کے قریبی اور نہایت قابل وفاقی سیکرٹریز تعینات ہیں:
• امداد اللہ بوسال — سیکرٹری خزانہ
• مومن آغا — سیکرٹری پیٹرولیم
• فخر عالم عرفان — سیکرٹری توانائی
• اویس منظور سمرا — سیکرٹری منصوبہ بندی
• سیف انجم — سیکرٹری صنعت و پیداوار
• وسیم اجمل چوہدری — سیکرٹری قومی فوڈ سیکیورٹی-
یہ وہی بیوروکریسی ہے جس نے پاکستان کی باگ ڈور ایسے افسران کے ہاتھوں میں دیکھی جنہیں تاریخ آج بھی مثالی ریاستی دماغ کے طور پر یاد کرتی ہے۔
قدرت اللہ شہاب (1950s)، جمشید مارکر (1970s–80s)، سعید مہدی (1990s) — یہ وہ افسران تھے جنہوں نے پاکستان کو سفارت، نظم و نسق، اور اخلاقی قیادت کے اعلیٰ معیار دیے۔
مگر آج؟ اسی بیوروکریسی کو غیر متعلقہ، غیر مؤثر، اور ناقابل اعتبار سمجھتے ہوئے ایک طرف دھکیل دیا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ ڈی ایم جی/پی اے ایس گروپ دراصل برطانوی دور کے ریونیو اور زمین داری نظام کا باقی ماندہ ادارہ ہے — جہاں افسران کی اصل تربیت “مساحت” (Mensuration) یعنی زمین کی ناپ تول اور بندوبست تک محدود تھی۔
مگر انہیں پورے ضلع کے عدالتی، انتظامی اور پولیسنگ اختیارات دے دیے گئے — حتیٰ کہ صرف پچیس سال پہلے تک اسسٹنٹ کمشنر یا ڈپٹی کمشنر ہی ایک ضلع میں عدالت، پولیس اور امن عامہ کا واحد نگران ہوتا تھا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ آج بھی “صوبائی سطح پر BPS-20 سے اوپر کی 70 فیصد اسامیاں اور وفاقی سطح پر 90 فیصد اسامیاں انہی افسران سے بھری جاتی ہیں۔”
یہ تمام طاقت، تمام اختیار — صرف “زمین کی ناپ تول” کی تربیت پر!
اب مگر ریاست کو معاشی ترقی کے لیے ایک نئی سمت کی ضرورت ہے — کارکردگی، ڈیجیٹل سوچ اور بین الاقوامی اسٹینڈرڈز کی حامل انتظامیہ۔
ایک مثال SIFC (Special Investment Facilitation Council) ہے، جو فوج کی سرپرستی میں بنایا گیا، تاکہ سرمایہ کاری اور اکنامک پالیسی کو انسٹیٹیوشنل سپورٹ دی جا سکے۔ مگر بیوروکریسی نے اس کی شدید مخالفت کی — جس پر اسٹیبلشمنٹ نے ناراضی کا اظہار کیا اور اب اسے ایک خودمختار وزارت بنانے پر غور ہو رہا ہے۔
پاکستان کی ریاست اب فیصلہ کر چکی ہے کہ سول بیوروکریسی کی بجائے پرفارمنس بیسڈ گورننس ہی ترقی کا راستہ ہے۔ڈی ایم جی گروپ، جس کا ماضی شاندار تھا، شاید اب تاریخ کی کتابوں میں ایک نظام کا انجام بن کر رہ جائےگا۔