
پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری ہمیشہ سے گھریلو مسائل، معاشرتی رویوں اور ثقافتی اقدار کو اپنے ڈراموں میں پیش کرتی رہی ہے۔ ‘دل والی گلی’ بھی ایک ایسا ہی ڈرامہ ہے جس میں روایتی اور جدید زندگی کے درمیان کشمکش اور گھرانوں کے اندرونی مسائل کو مزاحیہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس ڈرامے کا ایک اہم اور دلچسپ پہلو اٹیچڈ واش روم کا تصور اور اس سے جڑی ساس بہو کے رشتے کی نفسیات ہے۔
اٹیچڈ واش روم: ایک نیا تصور اور سماجی تبدیلی
ماضی میں پاکستانی گھرانوں میں اٹیچڈ واش روم کا رواج عام نہیں تھا۔ روایتی گھروں میں واش روم گھر سے باہر یا صحن کے ایک کونے میں بنایا جاتا تھا۔ اٹیچڈ واش روم کا رجحان نسبتاً نیا ہے اور یہ جدید طرز زندگی اور بڑھتے ہوئے شہری کلچر کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ سہولت اور ذاتی جگہ فراہم کرتا ہے، لیکن روایتی ذہنیت رکھنے والے گھرانوں میں اسے آسانی سے قبول نہیں کیا جاتا۔
‘دل والی گلی’ ڈرامے میں اٹیچڈ واش روم کو محض ایک سہولت کے طور پر نہیں بلکہ سماجی تبدیلی اور نسلوں کے درمیان فرق کے استعارے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ نئی نسل اٹیچڈ واش روم کو اپنی بنیادی ضرورت سمجھتی ہے، جبکہ پرانی نسل کے لوگ اسے فضول خرچی اور روایتی اقدار سے دوری سمجھتے ہیں۔
ساس کا موڈ اور صبح کا نہانا: ایک نفسیاتی پہلو
ڈرامے میں یہ دلچسپ صورتحال دکھائی گئی ہے کہ اگر بہوؤں میں سے کوئی بھی صبح نہا کر نکلتی ہے تو ساس کا موڈ پورا دن آف رہتا ہے۔ یہ ایک مضحکہ خیز اور ساتھ ہی غور طلب صورتحال ہے۔ اس کی کئی ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں:
- روایتی اقدار اور وقت کی پابندی: روایتی طور پر، صبح سویرے نہانا ہماری ثقافت میں اتنا عام نہیں سمجھا جاتا، خاص طور پر دیہی علاقوں میں۔ صبح کے وقت گھر کے دیگر کاموں کو ترجیح دی جاتی تھی، اور نہانے کا وقت عموماً دن کے کسی اور حصے میں ہوتا تھا۔ ساس کا موڈ آف ہونا شاید اس روایتی سوچ کی عکاسی کرتا ہو کہ بہوؤں کو صبح سویرے نہانے کے بجائے گھر کے کاموں پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ وقت کی پابندی اور گھریلو نظام کو برقرار رکھنے کی ایک روایتی کوشش ہو سکتی ہے۔
- کنٹرول اور طاقت کی نفسیات: گھروں میں ساس کا کردار اکثر طاقت اور کنٹرول کا ہوتا ہے۔ ساس، خاص طور پر روایتی گھرانوں میں، گھر کے نظام اور بہوؤں کے طرز زندگی پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ صبح نہانے کے عمل کو ساس کی طرف سے نظم و ضبط کی خلاف ورزی یا اس کے کنٹرول سے باہر کوئی عمل سمجھا جا سکتا ہے۔ اس لیے، جب بہوئیں صبح نہاتی ہیں، تو ساس کو یہ محسوس ہو سکتا ہے کہ اس کی طاقت اور کنٹرول کو چیلنج کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے وہ ناخوش اور آف موڈ ہو جاتی ہے۔
- حسد یا عدم تحفظ کا احساس: یہ بھی ممکن ہے کہ ساس اپنی بہوؤں کو اٹیچڈ واش روم کی سہولت سے مستفید ہوتے دیکھ کر حسد یا عدم تحفظ کا شکار ہو جاتی ہو۔ شاید ساس نے اپنی جوانی میں ایسی سہولیات کا تصور بھی نہیں کیا ہو گا، اور اب بہوؤں کو یہ آسائشیں میسر دیکھ کر اسے کہیں نہ کہیں ناانصافی یا محرومی کا احساس ہوتا ہو۔ یہ انسانی نفسیات کا ایک عام پہلو ہے کہ جب ہم دوسروں کو وہ سہولیات اور آسائشیں حاصل کرتے دیکھتے ہیں جو ہمیں میسر نہیں تھیں، تو حسد یا عدم تحفظ کا احساس جنم لے سکتا ہے۔
- مزاحیہ عنصر اور سماجی تنقید: ڈرامہ نگار نے اس صورتحال کو مزاحیہ انداز میں پیش کیا ہے، لیکن اس میں سماجی تنقید کا پہلو بھی موجود ہے۔ یہ ایک طنز ہے ان روایتی ذہنیتوں پر جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی ناراض ہو جاتی ہیں اور تبدیلی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتیں۔ یہ صورتحال ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا ہم چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑا مسئلہ بنا کر اپنے گھروں کا ماحول خراب تو نہیں کر رہے؟ اور کیا ہم روایتی رسوم و رواج کی اندھی تقلید میں جدید دور کی سہولیات اور ذاتی آزادی کو نظر انداز تو نہیں کر رہے؟
ڈرامے کا اثر اور پیغام
‘دل والی گلی’ جیسے ڈرامے تفریح کے ساتھ ساتھ معاشرتی مسائل پر روشنی ڈالتے ہیں اور مکالمے کا آغاز کرتے ہیں۔ یہ ڈرامہ اٹیچڈ واش روم اور صبح کے نہانے جیسے معمولی موضوعات کو اٹھا کر گھرانوں میں موجود چھوٹی چھوٹی لیکن اہم نفسیاتی اور سماجی مسائل کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ ہمیں یہ سوچنے کی دعوت دیتا ہے کہ کیا واقعی اٹیچڈ واش روم جیسی سہولت سے ساس کا موڈ آف ہونا منطقی ہے؟ یا یہ محض روایتی ذہنیت، کنٹرول کی خواہش اور عدم برداشت کا نتیجہ ہے؟
یہ ڈرامہ ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ ہمیں تبدیلی کو کھلے دل سے قبول کرنا چاہیے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑنے کے بجائے گھروں میں محبت اور برداشت کا ماحول پیدا کرنا چاہیے۔ نسلوں کے درمیان فرق اور نئی سوچ کو سمجھنا اور اس کا احترام کرنا ایک خوشحال اور پرامن معاشرے کی بنیاد ہے۔
اگر آپ اس ڈرامے یا اس موضوع پر مزید کچھ جاننا چاہتے ہیں تو براہ کرم ضرور بتائیں۔