google-site-verification=aZNfMycu8K7oF6lNUgjpjoa8ZAyM0qfHriwatL8flQ4
Expected judges of FCC

اسلام آباد – حکومت نے 27ویں آئینی ترمیم کے پارلیمنٹ وفاقی آئینی عدالت کی تشکیل کا عمل شروع: سپریم کورٹ کے کام کا بوجھ کم کرنے کا انقلابی منصوبہ بآسانی منظور ہونے کے بعد ملک کے اعلیٰ عدالتی نظام میں ایک بڑی تبدیلی کا عمل شروع کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی آئینی عدالت (Federal Constitutional Court – FCC) کے ابتدائی قیام کے لیے سات (7) ممتاز ججوں کو شارٹ لسٹ کیا گیا ہے، جس کا مقصد آئینی تشریح اور بین الحکومتی تنازعات کو نمٹانا ہے۔

سرکاری ذرائع کے مطابق، نئی عدالت کی تشکیل پر مشاورت کا آغاز ہو چکا ہے۔ توقع ہے کہ سپریم کورٹ کے آئینی بنچ کی سربراہی کرنے والے جسٹس امین الدین خان کو FCC کے پہلے چیف جسٹس کے طور پر مقرر کیا جائے گا۔

مجوزہ آئینی عدالت کا بنیادی ڈھانچہ

FCC کے قیام کا مقصد سپریم کورٹ کے کام کے بوجھ کو کم کرنا اور آئینی مقدمات میں فیصلہ سازی کے عمل کو تیز کرنا ہے۔ اس اقدام سے عدالتی آزادی اور اعتبار میں اضافہ ہونے کی توقع ہے۔

ابتدائی ججز کے لیے زیر غور نام

نئی وفاقی آئینی عدالت کے لیے جن ججوں کے ناموں پر غور کیا جا رہا ہے، ان میں سپریم کورٹ، سندھ ہائی کورٹ اور بلوچستان ہائی کورٹ کے موجودہ ججز شامل ہیں۔ زیر غور سات نام درج ذیل ہیں:

نامموجودہ عہدہمتوقع عہدہ
جسٹس امین الدین خانسپریم کورٹ (آئینی بنچ کے سربراہ)چیف جسٹس FCC (ممکنہ)
جسٹس سید حسن اظہر رضویسپریم کورٹ کے جججج FCC
جسٹس مسرت ہلالیسپریم کورٹ کی جججج FCC
جسٹس عامر فاروقسپریم کورٹ کے جججج FCC
جسٹس علی باقر نجفیلاہور ہائی کورٹ کے جججج FCC
جسٹس کے کے آغاسندھ ہائی کورٹ کے جججج FCC
جسٹس روزی خان بڑیچچیف جسٹس، بلوچستان ہائی کورٹجج FCC

ججوں کی تقرری: مجوزہ ترمیم کے تحت، وزیر اعظم کے مشورے پر صدر مملکت FCC کے ججز کی تقرری کریں گے۔ عدالت کی ابتدائی طاقت کا تعین صدارتی حکم (Presidential Order) کے ذریعے ہوگا، جبکہ بعد میں ججوں کی تعداد میں اضافہ پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کے ذریعے کیا جائے گا۔

ریٹائرمنٹ کی عمر اور عدالتی آزادی

FCC کے ججز کے لیے ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال مقرر کی گئی ہے، جو کہ سپریم کورٹ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی موجودہ عمر 65 سال سے تین سال زیادہ ہے۔ اس اقدام کا مقصد تجربہ کار اور ذہین ججوں کو اس نئے ادارے کی طرف راغب کرنا اور فیصلہ سازی میں تسلسل کو یقینی بنانا ہے۔

مقام کی تبدیلی اور علامتی علیحدگی

نئی آئینی عدالت کو فیڈرل شریعت کورٹ کی موجودہ عمارت میں قائم کیا جائے گا، جبکہ فیڈرل شریعت کورٹ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت میں منتقل کر دیا جائے گا۔ یہ انتظامی اور علامتی طور پر FCC کو سپریم کورٹ اور دیگر اعلیٰ عدالتوں سے الگ کرے گا، تاکہ اس کے کام کی آزادی اور اہمیت اجاگر ہو سکے۔

FCC کے خصوصی دائرہ کار (Exclusive Jurisdiction)

مجوزہ وفاقی آئینی عدالت کو آئینی امور پر خصوصی دائرہ اختیار حاصل ہوگا۔ اس کے اہم فرائض میں شامل ہوں گے:

  1. آئینی تشریح: آئین کے مختلف آرٹیکلز اور شقوں کی تشریح سے متعلق تمام معاملات۔
  2. بین الحکومتی تنازعات: وفاق (فیڈریشن) اور صوبوں کے درمیان اٹھنے والے تنازعات کا فیصلہ۔
  3. صدارتی احکامات کا جائزہ: صدر کے جاری کردہ احکامات کی قانونی حیثیت کا جائزہ لینا۔
  4. آئینی ترامیم: آئینی ترامیم کے خلاف دائر کی جانے والی درخواستوں کی جانچ پڑتال۔
  5. پارلیمانی ریفرنسز: صدر یا پارلیمنٹ کی جانب سے بھیجے گئے آئینی نوعیت کے سوالات پر فیصلہ دینا۔

اس اقدام کی تاریخی حیثیت

آئینی عدالت کا خیال پاکستان میں نیا نہیں ہے۔ یہ تصور پہلی بار 2006 کے چارٹر آف ڈیموکریسی (CoD) میں پیش کیا گیا تھا، جس پر پاکستان پیپلز پارٹی (PPP) اور پاکستان مسلم لیگ ن (PML-N) نے دستخط کیے تھے۔ اس چارٹر میں سپریم کورٹ کو آخری اپیل کی عدالت کے طور پر کام کرنے اور آئینی معاملات کے لیے ایک خصوصی عدالت کی تجویز دی گئی تھی۔

یہ خیال اس سے قبل 26ویں آئینی ترمیم کے مسودے میں بھی شامل تھا، تاہم، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور دیگر جماعتوں کی مخالفت کی وجہ سے اسے اس وقت شامل نہیں کیا جا سکا تھا۔ حکومت کا موجودہ یقین ہے کہ FCC کا قیام عدلیہ کی اصلاحات کے لیے ایک تاریخی قدم ثابت ہوگا۔

زیر غور ججز کا مختصر تعارف

جسٹس امین الدین خان (ممکنہ چیف جسٹس FCC):

جسٹس امین الدین خان 1960 میں ملتان میں پیدا ہوئے۔ وہ نسل در نسل وکالت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے 1984 میں ملتان کے یونیورسٹی لا کالج سے ایل ایل بی کیا اور 1987 میں لاہور ہائی کورٹ (LHC) اور 2001 میں سپریم کورٹ کے وکیل بنے۔ وہ 2011 میں LHC کے اور 2019 میں سپریم کورٹ کے جج بنے۔ انہوں نے سول اور آئینی قانون میں کئی اہم فیصلے لکھے ہیں۔

جسٹس سید حسن اظہر رضوی:

جسٹس رضوی 1962 میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1988 میں وکالت کا آغاز کیا اور 2023 میں سپریم کورٹ میں شامل ہوئے۔ وہ آئینی اور انتظامی قانون میں اپنی دیانتداری اور مہارت کے لیے جانے جاتے ہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی:

جسٹس مسرت ہلالی پشاور ہائی کورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس رہ چکی ہیں اور 2023 میں سپریم کورٹ میں ان کی تقرری ہوئی۔ ان کا ایک شاندار قانونی کیریئر رہا ہے اور وہ خیبر پختونخوا کی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور خواتین کو ہراسانی سے تحفظ فراہم کرنے والی وفاقی محتسب بھی رہ چکی ہیں۔

جسٹس عامر فاروق:

اسلام آباد ہائی کورٹ (IHC) کے سابق چیف جسٹس، جسٹس عامر فاروق کو فروری 2025 میں سپریم کورٹ میں ترقی دی گئی۔ انہوں نے لندن میں تعلیم حاصل کی اور وہ آئینی اور کمرشل قانون میں مہارت رکھتے ہیں۔

جسٹس علی باقر نجفی:

لاہور ہائی کورٹ کے جج، جسٹس علی باقر نجفی سول، فوجداری اور آئینی قانون کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ 37,000 سے زیادہ مقدمات کا فیصلہ کر چکے ہیں اور 2014 کے ماڈل ٹاؤن انکوائری سمیت کئی اہم تحقیقات کی قیادت کر چکے ہیں۔

جسٹس روزی خان بڑیچ:

بلوچستان ہائی کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس، جسٹس روزی خان بڑیچ نے 1998 میں عدلیہ میں شمولیت اختیار کی۔ وہ 2019 میں ہائی کورٹ کے جج بنے اور جولائی 2025 میں چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا۔

جسٹس کے کے آغا:

سندھ ہائی کورٹ کے جج، جسٹس کے کے آغا نے بین الاقوامی سطح پر بھی وسیع خدمات انجام دی ہیں۔ وہ سابق یوگوسلاویہ کے لیے اقوام متحدہ کے ٹربیونل میں پراسیکیوٹر اور سیرا لیون کے خصوصی عدالت میں سینئر کونسل کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔

About The Author

صفراوادی‘: انڈونیشیا کا وہ ’مقدس غار جہاں مکہ تک پہنچانے والی خفیہ سرنگ‘ موجود ہے جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے کیا دیکھا؟ سی ڈی اے ہسپتال میں لفٹ خراب ٹریفک پولیس جدید طریقہ واردات