برلن: جرمنی کی وفاقی وزیر داخلہ (نانسی فیسر) نے ملک میں مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ جرمنی اب مزید بڑی تعداد میں تارکین وطن کی آمد کو سنبھالنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ انہوں نے زور دیا ہے کہ مہاجرت کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے یورپی یونین کی سطح پر سخت اور فوری اقدامات ضروری ہیں۔
جرمنی، جو کہ 2015 کے مہاجرین کے بحران کے دوران سابق چانسلر اینگلا مرکل کی ‘ہم یہ کر سکتے ہیں’ کی پالیسی کے تحت لاکھوں پناہ گزینوں کو قبول کرنے کے لیے جانا جاتا ہے، اب دباؤ میں ہے۔ مقامی حکومتوں اور ریاستوں کو رہائش، تعلیم، اور بنیادی ڈھانچے کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
مہاجرین کی پالیسی میں سخت گیر تبدیلی
وزیر داخلہ کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب جرمنی میں مہاجرین کی پالیسی پر دائیں بازو کی جماعتوں کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔
- بارڈر کنٹرول میں اضافہ: جرمن حکومت نے ملک کی سرحدوں بالخصوص پولینڈ، آسٹریا اور چیک ریپبلک کے ساتھ عارضی بارڈر کنٹرول کو سخت کر دیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ پڑوسی یورپی ممالک سے غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے مہاجرین کی تعداد کو کم کیا جا سکے۔
- پناہ گزینوں کی واپسی کا منصوبہ: وزیر داخلہ نے دوٹوک موقف اپنایا ہے کہ جرمنی میں جرائم پیشہ سرگرمیوں میں ملوث تارکین وطن اور پناہ گزینوں کی واپسی کو یقینی بنایا جائے گا۔ حالیہ مہینوں میں افغانستان سے تعلق رکھنے والے ان افراد کی واپسی پر بھی زور دیا گیا ہے جو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔
- اندورنی سلامتی کے خدشات: حکومتی حکام نے خبردار کیا ہے کہ بڑھتی ہوئی غیر قانونی نقل مکانی کے ساتھ ساتھ جرائم پیشہ گروہوں کی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے، جو ملک کی اندرونی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ ان اقدامات کا مقصد آبادی کے خدشات کو دور کرنا بھی ہے۔
یورپی یونین پر دباؤ میں اضافہ
جرمنی، جو یورپی یونین میں سب سے زیادہ پناہ گزینوں کی میزبانی کرتا ہے، نے یونین کے دیگر رکن ممالک پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ وہ پناہ گزینوں کی پروسیسنگ کے عمل میں زیادہ حصہ لیں۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ یورپی پناہ گاہ کے نظام (European Asylum System) میں اصلاحات ضروری ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر رکن ممالک کے درمیان مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کے ایک مشترکہ طریقہ کار کی ضرورت پر زور دیا تاکہ فرنٹ لائن ممالک (جیسے اٹلی اور یونان) پر پڑنے والا بوجھ کم کیا جا سکے۔ ان کا خیال ہے کہ مشترکہ طریقہ کار سے ہی مہاجرت کو منظم اور انسانی طریقے سے سنبھالا جا سکتا ہے۔
تاریخی پس منظر اور موجودہ صورتحال
2015 میں، شام کی خانہ جنگی کے بعد، جرمنی نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر تقریباً 10 لاکھ سے زیادہ پناہ گزینوں کو قبول کیا۔ اس اقدام نے اگرچہ عالمی سطح پر تعریف سمیٹی، لیکن ملک کے اندر سیاسی اور سماجی تقسیم کو بھی جنم دیا۔
- مقامی سطح پر مشکلات: بہت سے شہروں اور قصبوں میں مہاجرین کی رہائش، انضمام (Integration)، اور عوامی خدمات کی فراہمی میں کمی کے مسائل اب بھی درپیش ہیں۔ مقامی حکام کا کہنا ہے کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے وہ مزید پناہ گزینوں کو ٹھکانے لگانے کے قابل نہیں ہیں۔
- سیاسی ردعمل: ملک کے سیاسی منظرنامے میں تارکین وطن کے خلاف سخت موقف رکھنے والی جماعتوں، جیسے کہ AfD (آلٹرنیٹو فار جرمنی)، کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومتی جماعتیں، جن میں وزیر داخلہ بھی شامل ہیں، ان سخت اقدامات کے ذریعے ووٹروں کو دوبارہ اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مہاجرت کو محدود کرنے کے لیے کیے جانے والے یکطرفہ ملکی اقدامات غیر مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں، جب تک کہ یورپی یونین ایک مکمل اور متفقہ پالیسی پر عمل نہ کرے۔ سرحدوں پر عارضی کنٹرول سے محض مسئلے کو ایک پڑوسی ملک سے دوسرے پڑوسی ملک کی طرف دھکیلا جاتا ہے۔
خلاصہ
وزیر داخلہ نانسی فیسر کا بیان جرمنی کی مہاجر پالیسی میں ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔ اب جرمنی اپنی روایتی ‘کشادہ دلی’ کے بجائے ‘عملی رکاوٹ’ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ برلن کا واضح پیغام ہے کہ مہاجرت ایک ایسا یورپی مسئلہ ہے جس کو صرف مشترکہ اور سخت قوانین کے ذریعے ہی کنٹرول کیا جا سکتا ہے، اور جرمنی اپنے شہریوں کی اندرونی سلامتی اور بنیادی ڈھانچے پر مزید بوجھ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
