google-site-verification=aZNfMycu8K7oF6lNUgjpjoa8ZAyM0qfHriwatL8flQ4
image_search_1749834973946

13 جون 2025، تہران / یروشلم

تہران اور یروشلم کے درمیان جاری کشیدگی میں ایک تشویشناک اضافہ ہوا ہے، جب اسرائیل نے آج صبح ایران پر بڑے پیمانے پر فضائی حملے کیے ہیں۔ اسرائیلی حکام نے ان حملوں میں جوہری اور فوجی اہداف کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے، تاہم ایرانی ذرائع نے بتایا ہے کہ ان حملوں کے نتیجے میں ایرانی مسلح افواج کے سربراہ جنرل محمد باقری اور پاسداران انقلاب کے سربراہ جنرل حسین سلامی سمیت متعدد اعلیٰ فوجی کمانڈرز، 6 جوہری سائنسدان اور بڑی تعداد میں عام شہری شہید ہو گئے ہیں۔ ان حملوں نے خطے میں صورتحال کو انتہائی کشیدہ بنا دیا ہے اور بین الاقوامی سطح پر شدید تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

حملوں کی تفصیلات اور نقصانات

آج صبح سویرے، اسرائیل نے ایران کے مختلف شہروں میں درجنوں مقامات پر شدید فضائی حملے کیے۔ تہران کے شمال مشرقی علاقوں میں زور دار دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں، اور کئی مقامات سے دھویں کے گہرے بادل فضا میں بلند ہوتے دکھائی دیے۔ حملوں کی شدت اور ہدف بنائے گئے مقامات کی تعداد نے ایران میں خوف و ہراس پھیلا دیا، اور ابتدائی اطلاعات کے مطابق وسیع پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔

ایرانی سرکاری ٹی وی نے ان حملوں میں ہونے والے نقصانات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ملک کی کئی اہم شخصیات ان حملوں کا نشانہ بنی ہیں۔ شہید ہونے والوں میں خاص طور پر نمایاں نام درج ذیل ہیں:

  • ایرانی آرمی چیف جنرل محمد باقری: مسلح افواج کے سربراہ کی شہادت ایران کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔
  • پاسداران انقلاب کے کمانڈر جنرل حسین سلامی: پاسداران انقلاب کے اعلیٰ ترین کمانڈر کی شہادت نے ایرانی دفاعی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔
  • پاسداران انقلاب کے سینئر کمانڈر غلام علی راشد: ایک اور اہم فوجی کمانڈر کی شہادت بھی حملوں کی سنگینی کو ظاہر کرتی ہے۔
  • القدس فورس کے سینئر کمانڈر اسماعیل قانی: القدس فورس کے کمانڈر کی شہادت نے خطے میں اسرائیل کے خلاف کارروائیوں پر گہرے اثرات مرتب ہونے کے خدشات کو جنم دیا ہے۔
  • ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر تہرانچی اور ڈاکٹر فریدون عباسی: ایران کے جوہری پروگرام سے منسلک دو سرکردہ سائنسدانوں کی شہادت ایران کے جوہری عزائم کے لیے بھی ایک بڑا نقصان ہے۔ اس کے علاوہ مزید چار نامعلوم سائنسدانوں کی شہادت کی بھی اطلاعات ہیں۔
  • ایرانی جوہری پروگرام کے سربراہ علی شمخانی: جوہری پروگرام کے سربراہ کی شہادت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اسرائیل کے حملوں کا مقصد ایران کی جوہری صلاحیت کو براہ راست نشانہ بنانا تھا۔

ایرانی سرکاری ٹی وی نے مزید بتایا کہ تہران کے رہائشی علاقوں پر بھی اسرائیلی حملے ہوئے ہیں، جن میں متعدد عام شہری، جن میں بچے بھی شامل ہیں، جاں بحق ہوئے ہیں۔ ابتدائی اعداد و شمار کے مطابق، پچاس سے زیادہ شہری زخمی بتائے گئے ہیں، اور ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ تہران کے شمالی، مغربی اور وسطی علاقوں پر حملے کی تصدیق خود ایرانی میڈیا نے بھی کی ہے، جو ان حملوں کے وسیع پیمانے پر پھیلاؤ کو ظاہر کرتا ہے۔

اسرائیل کا دعویٰ اور ہنگامی حالت کا نفاذ

دوسری جانب، اسرائیلی وزیرِ دفاع نے ان حملوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے ایران پر “پیشگی حملہ” کیا ہے۔ اس بیان کے ساتھ ہی اسرائیل میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی ہے، جس سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ اسرائیل ایران کی طرف سے ممکنہ جوابی کارروائی کے لیے تیار ہے۔

اسرائیلی فوجی عہدیداروں کے مطابق، ان حملوں کا بنیادی ہدف ایران کے جوہری اور فوجی تنصیبات تھیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل نے ایران میں درجنوں مقامات کو نشانہ بنایا ہے تاکہ اس کی دفاعی اور جوہری صلاحیتوں کو کمزور کیا جا سکے۔ اسرائیلی فضائیہ کے تقریباً 200 لڑاکا طیاروں نے اس بڑے فضائی آپریشن میں حصہ لیا۔ امریکی اخبارات نے بھی اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ایران کی فوجی قیادت کی رہائش گاہوں سمیت 6 فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، جو اعلیٰ فوجی کمانڈرز کی شہادت کی خبروں کو مزید تقویت دیتا ہے۔

بین الاقوامی رد عمل اور خطے پر ممکنہ اثرات

ان حملوں نے عالمی سطح پر تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ اقوام متحدہ اور مختلف عالمی طاقتوں کی جانب سے فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے اور صورتحال کو مزید خراب ہونے سے روکنے کی اپیلیں کی جا رہی ہیں۔ ایران نے ان حملوں کو اپنی خودمختاری پر حملہ قرار دیا ہے اور جوابی کارروائی کا عندیہ دیا ہے، جس سے خطے میں ایک وسیع تنازعے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ مشرق وسطیٰ پہلے ہی کئی تنازعات کا شکار ہے، اور ایران اور اسرائیل کے درمیان براہ راست فوجی تصادم کے ایسے واقعات علاقائی امن و استحکام کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔

ایران کے جوہری سائنسدانوں اور پروگرام کے سربراہ کی شہادت سے ایران کے جوہری عزائم پر بھی سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ اگرچہ ایران نے ہمیشہ اپنے جوہری پروگرام کو پرامن مقاصد کے لیے قرار دیا ہے، لیکن اسرائیل اسے اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے اور اس پر حملہ آور ہوتا رہا ہے۔

نتیجہ

13 جون 2025 کو ہونے والے اسرائیلی حملوں نے ایران کے دفاعی اور جوہری پروگرام پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ایرانی مسلح افواج کے سربراہ سمیت متعدد اعلیٰ فوجی کمانڈرز اور جوہری سائنسدانوں کی شہادت، اور عام شہریوں کی ہلاکت نے ایران میں سوگ اور شدید غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔ اسرائیل کے پیشگی حملے کے دعوے اور ہنگامی حالت کے نفاذ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایران کی ممکنہ جوابی کارروائی کے لیے تیار ہے۔ یہ صورتحال مشرق وسطیٰ میں تناؤ کو انتہائی خطرناک سطح پر لے گئی ہے اور عالمی برادری کو اس تنازعے کو مزید بڑھنے سے روکنے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ آنے والے دنوں میں خطے کے لیے غیر یقینی اور شدید چیلنجوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔

صفراوادی‘: انڈونیشیا کا وہ ’مقدس غار جہاں مکہ تک پہنچانے والی خفیہ سرنگ‘ موجود ہے جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے کیا دیکھا؟ سی ڈی اے ہسپتال میں لفٹ خراب ٹریفک پولیس جدید طریقہ واردات