google-site-verification=aZNfMycu8K7oF6lNUgjpjoa8ZAyM0qfHriwatL8flQ4
Jahadi Afghanistan vs Ideological Pakistan

اسلام آباد / کابل – 17 نومبر 2025۔ پاکستان اور طالبان کی حکومت کے درمیان تعلقات ایک اہم نظریاتی موڑ پر آ کھڑے ہوئے ہیں، جہاں کئی دہائیوں پر محیط دیرینہ ‘مشترکہ مقاصد’ کی بنیاد کمزور پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ سیاسی اور سیکیورٹی تجزیہ کاروں کے مطابق، افغانستان میں طالبان کی کامیابی کے بعد، وہ عناصر جنہیں ماضی میں دونوں اطراف ‘جہاد کی مشترکہ علامت’ سمجھتے تھے، اب اسلام آباد اور کابل کے درمیان تناؤ اور عدم اعتماد کا بنیادی ذریعہ بن چکے ہیں۔

طالبان کی طرف سے حالیہ پالیسیوں اور بیانات نے واضح طور پر پاکستان کے پرانے اتحادی تعلقات کو چیلنج کیا ہے، خاص طور پر سرحد پار عسکریت پسند گروپوں، خصوصاً تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے خلاف کارروائی کے معاملے پر۔ اس غیر متوقع انحراف نے علاقائی سیکیورٹی کو ایک نئے بحران سے دوچار کر دیا ہے۔

بنیادی تناؤ: ‘برادرانہ’ تعلقات سے ‘نظریاتی’ اختلاف تک

پاکستان نے طویل عرصے تک افغانستان کے طالبان کو ایک اسٹریٹجک گہرائی اور مشترکہ نظریاتی رشتہ داری کے تناظر میں دیکھا۔ دونوں فریقین ایک ہی ‘عالمی اسلامی تحریک’ کا حصہ سمجھے جاتے تھے، اور کابل میں طالبان کی فتح کو اسلام آباد میں کئی حلقوں نے ایک مثبت سیکیورٹی پیش رفت کے طور پر سراہا تھا۔ تاہم، گزشتہ دو برسوں کے دوران یہ برادرانہ تعلقات تیزی سے تلخ ہوتے گئے ہیں۔

1. ٹی ٹی پی کا مسئلہ: مشترکہ نظریہ یا سیکیورٹی خطرہ؟

تناؤ کی سب سے بڑی وجہ سرحد پار عسکریت پسندی ہے، جس کی قیادت ٹی ٹی پی کر رہی ہے۔ پاکستان کا موقف واضح ہے کہ طالبان اپنے سابقہ وعدوں کے مطابق ٹی ٹی پی کو افغان سرزمین استعمال کرنے سے روکیں گے۔ لیکن کابل کی جانب سے عملی اقدامات کی بجائے محض بیانات یا محدود کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

طالبان کا بنیادی انحراف ان کے اس نظریاتی مؤقف میں مضمر ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کو ‘اندرونی افغان مسئلہ’ نہیں سمجھتے اور نہ ہی ان کے خلاف کارروائی کو کسی بیرونی (پاکستانی) ایجنڈے کے تحت قبول کرتے ہیں۔ ان کا مؤقف یہ ہے کہ:

  • بین الاقوامی سرحد کی نفی: طالبان، ٹی ٹی پی کی طرح، ڈیورنڈ لائن کو ایک تسلیم شدہ بین الاقوامی سرحد کے طور پر قبول نہیں کرتے۔ ان کے لیے، سرحد کے دونوں جانب کے لوگ ایک ہی ‘امت’ کا حصہ ہیں، اس لیے ٹی ٹی پی کے ارکان کو ‘غیر ملکی دہشت گرد’ قرار دینا ان کے لیے مشکل ہے۔
  • جہادی اخوت: افغانستان کے طالبان، ٹی ٹی پی کے ارکان کو اپنے بھائی سمجھتے ہیں جنہوں نے امریکہ کے خلاف ان کی ‘جہادی جنگ’ میں ان کا ساتھ دیا۔ اس اخوت کو توڑنا، جیسا کہ ایک ماہر نے تبصرہ کیا، “طالبان کی بنیادی نظریاتی ساخت کو توڑنے” کے مترادف ہے۔

2. داخلی ترجیحات پر توجہ

طالبان اب ایک عسکری گروہ کے بجائے ایک قومی حکومت کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ ان کی داخلی ترجیحات تبدیل ہو چکی ہیں۔ ان کا اولین مقصد افغانستان کے اندرونی استحکام، مختلف قبائلی گروہوں کے درمیان توازن قائم کرنا، اور عالمی برادری سے اپنی حکومت کو تسلیم کرانا ہے۔ ٹی ٹی پی کے خلاف سخت کارروائی کرنے سے افغان سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں موجود سخت گیر دھڑوں کی ناراضی کا خطرہ ہے، جو ان کے داخلی استحکام کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

اقتصادی اور سیاسی دباؤ: پاکستان کا بڑھتا ہوا غصہ

پاکستان کے لیے سرحد پار عسکریت پسندی اب صرف ایک سیکیورٹی مسئلہ نہیں رہی، بلکہ یہ قومی معیشت اور سیاسی استحکام کے لیے ایک براہ راست خطرہ بن چکی ہے۔ حالیہ عرصے میں ملک میں ہونے والے مہلک حملوں نے اسلام آباد کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ کابل کے ساتھ اپنے تعلقات پر از سر نو غور کرے۔

1. افغان مہاجرین کا بحران

پاکستان نے ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانوں اور ان کی کارروائیوں میں افغان شہریوں کے ملوث ہونے کے پیش نظر، لاکھوں افغان مہاجرین کی ملک بدری کا سخت اقدام اٹھایا۔ یہ فیصلہ جہاں ایک طرف داخلی سیکیورٹی کی مجبوری تھی، وہیں دوسری طرف کابل پر سیکیورٹی تعاون بڑھانے کے لیے دباؤ ڈالنے کی ایک واضح کوشش بھی تھی۔

2. اقتصادی راہداریوں پر اثرات

سیکیورٹی کی صورتحال کی وجہ سے پاک افغان تجارت اور وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی کی اقتصادی راہداریوں (Economic Corridors) کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ پاکستان کا یہ مؤقف ہے کہ اگر طالبان سرحدوں کو محفوظ بنانے میں ناکام رہتے ہیں، تو اس سے علاقائی انضمام کے تمام بڑے منصوبے، بشمول چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کی توسیع، خطرے میں پڑ جائیں گے۔

ایک پاکستانی سیکیورٹی تجزیہ کار کا کہنا ہے، “ہم ان سے دوستی اور اتحاد کی توقع کر رہے تھے، لیکن وہ آج بھی ٹی ٹی پی کے خلاف اس نظریاتی نقطہ نظر سے کام نہیں لے رہے جو ہمارے لیے ضروری ہے۔ ان کا قومی ایجنڈا ان کی جہادی اخوت پر غالب نہیں آ سکا۔”

نظریاتی تقسیم اور علاقائی مضمرات

طالبان کا یہ انحراف صرف ایک پالیسی کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ایک گہری نظریاتی تقسیم کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کا یہ مؤقف کہ ٹی ٹی پی ایک ‘اسلامی تحریک’ ہے اور اسے پاکستانی سیکیورٹی فورسز سے لڑنے کا حق حاصل ہے، عالمی ‘جہادی’ تحریکوں کو ایک مضبوط اشارہ بھی دیتا ہے:

  1. خودمختاری کی نئی تعریف: کابل واضح کر رہا ہے کہ وہ اپنی زمین کو بیرونی حکومتوں کی سیکیورٹی ضروریات کے لیے ‘صاف’ نہیں کرے گا۔ یہ مؤقف ان کی افغانستان کی خودمختاری کی نئی تعریف کا حصہ ہے، جس میں وہ کسی بھی ‘بیرونی مداخلت’ کو مسترد کرتے ہیں۔
  2. دہشت گردی کی دوہری تعریف: پاکستان دہشت گردی کی تمام شکلوں کو مسترد کرنے کا مطالبہ کرتا ہے، جبکہ طالبان اب بھی بعض گروہوں کو ان کے نظریاتی مقاصد کی بنیاد پر جواز فراہم کر رہے ہیں۔ یہ دہشت گردی کی دوہری تعریف علاقائی سلامتی کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔

آئندہ کا راستہ: باہمی تعلقات کی نوعیت

موجودہ کشیدگی کو دیکھتے ہوئے، پاک افغان تعلقات میں بہتری کا راستہ سخت اور طویل ہو سکتا ہے۔

  • سرحدی انتظام: پاکستان نے سرحدی انتظام کو مضبوط بنانے کے لیے تیزی سے اقدامات کیے ہیں، جس میں مزید چوکیوں کا قیام اور سیکیورٹی کی سخت نگرانی شامل ہے۔
  • سفارتی دباؤ: اسلام آباد عالمی اور علاقائی پلیٹ فارمز، خاص طور پر چین کے ذریعے کابل پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں تیز کر سکتا ہے تاکہ ٹی ٹی پی کو لگام دی جا سکے۔
  • مشترکہ سیکیورٹی میکانزم کی ضرورت: دونوں ممالک کو مشترکہ سیکیورٹی اور انٹیلی جنس شیئرنگ کے لیے ایک قابل عمل میکانزم پر رضامند ہونا پڑے گا، وگرنہ سرحد بدستور غیر مستحکم رہے گی۔

نتیجہ: طالبان کی جانب سے اپنے پرانے اتحادی پاکستان کے ساتھ نظریاتی اور عملی طور پر انحراف ایک نئے دور کا آغاز ہے، جہاں دوستی کی بنیاد اب عقائد نہیں بلکہ خالص قومی مفادات پر مبنی ہوگی۔ جب تک ٹی ٹی پی کو افغان سرزمین پر محفوظ پناہ گاہیں میسر ہیں، پاک افغان تعلقات کی بحالی ممکن نظر نہیں آتی۔

About The Author

صفراوادی‘: انڈونیشیا کا وہ ’مقدس غار جہاں مکہ تک پہنچانے والی خفیہ سرنگ‘ موجود ہے جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے کیا دیکھا؟ سی ڈی اے ہسپتال میں لفٹ خراب ٹریفک پولیس جدید طریقہ واردات