جاپان کی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (LDP) کی اہم رہنما اور سابق وزیر برائے اقتصادی سلامتی، سنائی تاکائیچی نے ایک غیر معمولی بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی ہے۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب جاپان اور شمالی کوریا کے درمیان سفارتی تعلقات تقریباً منجمد ہیں اور شمالی کوریا کی جانب سے میزائل تجربات کا سلسلہ جاری ہے۔
تاکائیچی کا غیر متوقع بیان
سنائی تاکائیچی، جو جاپان کے قدامت پسند سیاسی دھارے میں ایک مضبوط اور بااثر شخصیت سمجھی جاتی ہیں، نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر انہیں موقع ملا تو وہ شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ ان سے براہ راست ملاقات کرنا چاہیں گی۔ ان کا مقصد جاپانی مغویوں کا مسئلہ حل کرنا ہے۔
مغویوں کا مسئلہ سب سے اہم:
جاپان کے لیے دہائیوں سے مغویوں کا مسئلہ ایک حساس ترین قومی مسئلہ رہا ہے۔ یہ وہ جاپانی شہری ہیں جنہیں 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں شمالی کوریا کے جاسوسوں نے اغوا کیا تھا تاکہ انہیں جاپانی زبان اور ثقافت سکھانے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
تاکائیچی نے اپنے بیان میں کہا: “میرے خیال میں ہمیں سفارتی دروازہ مکمل طور پر بند نہیں کرنا چاہیے، خاص طور پر جب بات مغویوں کی وطن واپسی کی ہو۔ اگر ملاقات سے ہمارے شہریوں کی محفوظ واپسی یقینی بنتی ہے، تو میں کم جونگ ان سے ملنے کے لیے تیار ہوں۔”
جاپان کی طویل المدتی حکمت عملی میں تبدیلی؟
تاکائیچی کا یہ بیان جاپانی حکومت کی موجودہ حکمت عملی سے قدرے انحراف سمجھا جا رہا ہے۔ اگرچہ جاپان مغویوں کے مسئلے کے حل کے لیے ہمیشہ تیار رہا ہے، لیکن براہ راست کم جونگ ان سے ملاقات کی پیشکش ایک طاقتور سیاسی شخصیت کی جانب سے آنا ایک بڑی خبر ہے۔
سیاسی وژن:
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ تاکائیچی کی سیاسی بصیرت کا حصہ ہے، جو ایک سخت گیر رہنما کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ وہ اس انتہائی مشکل مسئلے کو حل کر کے جاپان کی وزارت عظمیٰ کے لیے اپنے راستے کو ہموار کرنے کی کوشش کر سکتی ہیں۔ دوسری جانب، کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بیان شمالی کوریا پر دباؤ بڑھانے کی جاپانی کوششوں کا حصہ بھی ہو سکتا ہے کہ سفارتی بات چیت کا راستہ ابھی بھی کھلا ہے۔
شمالی کوریا کا ممکنہ ردعمل
شمالی کوریا عام طور پر جاپان کے ساتھ سفارتی بات چیت سے گریز کرتا رہا ہے، اور جب بھی بات چیت ہوتی ہے تو وہ ہمیشہ جاپان سے اقتصادی پابندیاں اٹھانے یا مالی امداد کا مطالبہ کرتا ہے۔
کم جونگ ان کی شرطیں:
ماہرین کے مطابق، کم جونگ ان کسی بھی ملاقات کے لیے چند سخت شرائط عائد کر سکتے ہیں، جن میں یہ بھی شامل ہو سکتا ہے کہ جاپان اپنے میزائل پروگرام پر تنقید بند کرے۔ تاہم، چونکہ مغویوں کا مسئلہ براہ راست انسانی ہمدردی سے جڑا ہے، اس لیے شمالی کوریا اس پر بات چیت کے لیے محدود دلچسپی دکھا سکتا ہے۔
حکومت اور پارٹی کا ردعمل
جاپان کے موجودہ وزیراعظم (نام ظاہر نہیں) نے تاکائیچی کے بیان پر محتاط ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ حکومتی ترجمان نے کہا ہے کہ حکومت کی اولین ترجیح مغویوں کی واپسی ہے اور وہ اس کے لیے تمام ممکنہ راستے استعمال کرنے کے لیے تیار ہے۔ تاہم، انہوں نے زور دیا کہ کوئی بھی ملاقات یا سفارتی کوشش وزیراعظم کے دفتر اور وزارت خارجہ کی زیر نگرانی ہونی چاہیے۔
LDP میں بحث:
حکمران LDP میں بھی اس بیان پر بحث چھڑ گئی ہے۔ پارٹی کے ایک حصے کا خیال ہے کہ کم جونگ ان سے ملاقات خطرناک ثابت ہو سکتی ہے اور یہ شمالی کوریا کو ناجائز سفارتی اہمیت دے گی۔ جبکہ دوسرے دھڑے نے اس خیال کی حمایت کی ہے کہ روایتی سفارتی تعطل کو توڑنے کے لیے غیر روایتی اقدامات ضروری ہیں۔
علاقائی سلامتی پر مضمرات
یہ سفارتی پیش رفت جاپان کی علاقائی سلامتی کی پالیسی پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔ جاپان، امریکہ اور جنوبی کوریا کے ساتھ قریبی اتحاد میں شمالی کوریا کے جوہری اور میزائل خطرات کا مقابلہ کر رہا ہے۔ تاکائیچی کی تجویز، اگرچہ انسانی ہمدردی کے پہلو سے متعلق ہے، لیکن یہ علاقائی اتحاد میں بھی بحث کو جنم دے سکتی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ جاپان کی حکومت اس پیشکش کو کس طرح آگے بڑھاتی ہے اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کا اس پر کیا ردعمل سامنے آتا ہے۔ یہ پیش رفت مغویوں کے خاندانوں کے لیے ایک نئی امید کی کرن بھی ثابت ہو سکتی ہے۔
