
ٹوکیو: جاپان کی شہنشاہی دنیا کی قدیم ترین موروثی بادشاہت سمجھی جاتی ہے، جو تقریباً 2,600 سال سے زائد عرصے سے قائم ہے۔ تاہم، اس قدیم روایت اور شاہی خاندان کا مستقبل اب سنگین خطرے سے دوچار ہے، اور اس کی سب سے بڑی وجہ سخت قوانین پر مبنی مردانہ جانشینی کا اصول ہے۔
اس وقت جاپان کے تخت کے وارث صرف ایک نوجوان شہزادے ہیساہیتو ہیں، جو شہزادہ اکی شینو کے بیٹے اور موجودہ شہنشاہ ناروہیتو کے بھتیجے ہیں۔ شہنشاہ ناروہیتو کی کوئی نرینہ اولاد نہیں ہے، بلکہ ان کی اکلوتی بیٹی شہزادی آئیکو ہیں۔ شاہی قوانین کے تحت، خواتین کو تخت کا وارث نہیں بنایا جا سکتا، اور انہیں شادی کے بعد شاہی حیثیت بھی ترک کرنا پڑتی ہے۔
اگرچہ ماضی میں شہزادہ ہیساہیتو کی پیدائش سے شاہی جانشینی کا مسئلہ عارضی طور پر حل ہو گیا تھا، لیکن آنے والی نسلوں میں یہ بحران دوبارہ سر اٹھا سکتا ہے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ اگر شہزادہ ہیساہیتو کو بھی نرینہ اولاد نہ ہوئی تو شاہی خاندان کی یہ قدیم ترین بادشاہت ختم ہو سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ شاہی خاندان کے ارکان کی تعداد میں مسلسل کمی آ رہی ہے، اور اس کی سب سے بڑی وجہ مردانہ جانشینی کے سخت قوانین ہیں۔ جاپان میں اس مسئلے پر کئی بار بحث ہو چکی ہے کہ آیا خواتین کو بھی شاہی تخت کا وارث بننا چاہیے یا نہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ اگر شہزادی آئیکو کو تخت کا وارث بنایا جائے تو اس مسئلے کا حل نکل سکتا ہے، لیکن روایت پرست عناصر اس کی شدید مخالفت کر رہے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ شاہی تخت صرف مردوں کے لیے مخصوص ہے۔
اس مسئلے کے حل کے لیے دو تجاویز زیرِ غور ہیں:
- قوانین میں تبدیلی: شاہی قوانین میں ترمیم کی جائے تاکہ خواتین بھی تخت کی وارث بن سکیں۔ یہ تجویز جاپانی عوام میں کافی مقبول ہے، لیکن روایت پرست سیاستدان اس کے خلاف ہیں۔
- خواتین کو شاہی حیثیت برقرار رکھنے کی اجازت: ایسی خواتین جو شاہی خاندان میں پیدا ہوئی ہیں، انہیں شادی کے بعد بھی اپنی شاہی حیثیت برقرار رکھنے کی اجازت دی جائے۔
اس وقت یہ معاملہ جاپانی حکومت کے لیے ایک حساس اور پیچیدہ مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اگرچہ وزیراعظم فومیو کشیدا نے اس پر غور کرنے کا وعدہ کیا ہے، لیکن وہ بھی قدامت پسند سیاستدانوں کی مخالفت کی وجہ سے کوئی ٹھوس قدم اٹھانے سے گریزاں ہیں۔ جاپان کے شاہی خاندان کا مستقبل اور اس کی بقا اب اس بات پر منحصر ہے کہ آیا وہ صدیوں پرانے قوانین میں تبدیلی لاتے ہیں یا نہیں۔