اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک تاریخی اور اہم فیصلے میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ ان کی قانون کی ڈگری (Law Degree) کے غیر قانونی اور جعلی ثابت ہونے کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔
کیس کا پس منظر
جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری کا معاملہ اس وقت سرخیوں میں آیا جب سوشل میڈیا اور مختلف فورمز پر ان کی تعلیمی اسناد کے حوالے سے سوالات اٹھائے گئے۔
- شکایات کا اندراج: سپریم جوڈیشل کونسل اور متعلقہ حکام کو شکایات موصول ہوئیں کہ جسٹس جہانگیری نے جج کے عہدے پر فائز ہونے کے لیے جو قانون کی ڈگری پیش کی تھی، وہ قانونی تقاضوں پر پوری نہیں اترتی۔
- تحقیقاتی عمل: ان شکایات کی روشنی میں جامع تحقیقات کی گئیں، جن میں کراچی یونیورسٹی سمیت دیگر متعلقہ اداروں کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی گئی۔
- یونیورسٹی کی رپورٹ: تحقیقات کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ جسٹس جہانگیری کی ایل ایل بی کی ڈگری کے ریکارڈ میں تضادات موجود ہیں اور اسے غیر قانونی قرار دیا گیا۔
عدالتی فیصلہ اور برطرفی
اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق، کسی بھی جج کے لیے دیانتداری اور درست تعلیمی اسناد بنیادی شرط ہیں۔
- فیصلے کی بنیاد: عدالت نے قرار دیا کہ چونکہ جسٹس طارق محمود جہانگیری کی بنیادی ڈگری ہی جعلی یا غیر قانونی ثابت ہو چکی ہے، اس لیے وہ ہائی کورٹ کے جج کے طور پر کام جاری رکھنے کے اہل نہیں رہے۔
- عہدے سے سبکدوشی: اس فیصلے کے بعد انہیں فوری طور پر ان کے فرائض سے سبکدوش کر دیا گیا ہے۔
قانونی ماہرین کی رائے
قانونی ماہرین اس فیصلے کو عدلیہ کی شفافیت کے حوالے سے ایک اہم قدم قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ:
- یہ فیصلہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں، چاہے وہ کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو۔
- اس اقدام سے عدلیہ کے وقار میں اضافہ ہوگا اور مستقبل میں ججز کے تقرر کے عمل میں مزید سختی اور جانچ پڑتال کی جائے گی۔
عوامی اور سیاسی ردعمل
جسٹس جہانگیری کی برطرفی پر سیاسی حلقوں اور بار کونسلز کی جانب سے ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ وکلاء تنظیموں کے ایک گروہ نے اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیا ہے، جبکہ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے دوران دفاع کا مکمل موقع دیا جانا ضروری تھا۔
مستقبل کے اثرات
اس فیصلے کے بعد اب یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری نے اپنے دورِ منصب میں جو فیصلے سنائے، ان کی قانونی حیثیت کیا ہوگی۔ ماہرینِ قانون کے مطابق، عام طور پر ایسے فیصلے برقرار رہتے ہیں، لیکن بعض مخصوص صورتوں میں انہیں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
یہ واقعہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایک ایسی مثال بن گیا ہے جہاں اعلیٰ ترین سطح پر احتساب کے عمل کو یقینی بنایا گیا ہے۔
