google-site-verification=aZNfMycu8K7oF6lNUgjpjoa8ZAyM0qfHriwatL8flQ4
Justice with discrimination

فوری خبر: جی او آر لاہور کے ججز ریسٹ ہاؤس میں ‘خصوصی برتنوں’ کے استعمال پر چار ملازمین کے خلاف انکوائری اور تادیبی کارروائی

تاریخ: 20 جولائی 2025

تعارف:

لاہور کے گورنمنٹ آفیسرز ریزیڈنسی (جی او آر) میں واقع ججز ریسٹ ہاؤس سے ایک ایسا واقعہ سامنے آیا ہے جس نے عدالتی نظام میں اخلاقیات اور طبقاتی تقسیم پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ یہ واقعہ دسمبر 2024 میں پیش آیا، جہاں چار نچلے درجے کے ملازمین، جن میں ویٹر اور سویپر شامل ہیں، کے خلاف اس “گستاخی” پر کارروائی کی گئی کہ انہوں نے مبینہ طور پر “معزز” جج صاحبان کے لیے مخصوص برتنوں میں کھانا کھایا۔ لاہور ہائی کورٹ نے اس “المناک سانحے” کا نوٹس لیتے ہوئے ایک تفصیلی انکوائری کا حکم دیا، جس کے نتائج نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف عدلیہ کے اندرونی معاملات کی عکاسی کرتا ہے بلکہ معاشرے میں موجود طبقاتی تفریق کو بھی نمایاں کرتا ہے۔

واقعے کی تفصیلات: ایک ‘المناک سانحہ’؟

دسمبر 2024 میں، جی او آر لاہور میں واقع ججز ریسٹ ہاؤس میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جسے عدالتی حلقوں میں “المناک سانحہ” قرار دیا جا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق، ریسٹ ہاؤس کے چار ملازمین، جن کا تعلق ویٹر اور سویپر لیول سے تھا، پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے جج صاحبان کے لیے مخصوص کیے گئے برتنوں میں کھانا کھایا۔ یہ بظاہر ایک معمولی واقعہ لگتا ہے، لیکن اسے عدلیہ کے وقار اور مخصوص پروٹوکول کی خلاف ورزی سمجھا گیا۔

ذرائع کے مطابق، یہ ملازمین، جو اپنی روزمرہ کی ڈیوٹی کے دوران ریسٹ ہاؤس میں خدمات انجام دیتے ہیں، نے شاید نادانستہ طور پر یا بھوک کی شدت میں ان برتنوں کا استعمال کیا جو صرف “معزز” جج صاحبان کے لیے مختص تھے۔ اس عمل کو فوری طور پر نوٹس لیا گیا اور اسے ایک سنگین خلاف ورزی کے طور پر دیکھا گیا۔ اس واقعے نے عدالتی پروٹوکول اور ملازمین کے لیے مقرر کردہ حدود کے بارے میں کئی سوالات کھڑے کر دیے۔

لاہور ہائی کورٹ کی تفصیلی انکوائری:

اس واقعے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے، لاہور ہائی کورٹ نے فوری طور پر ایک تفصیلی انکوائری کا حکم دیا۔ انکوائری کمیٹی نے واقعے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا۔ اس انکوائری میں گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے، جن میں ریسٹ ہاؤس کے دیگر عملے اور ممکنہ طور پر واقعے کے وقت موجود افراد شامل تھے۔ مزید برآں، ویڈیو شواہد بھی شامل کیے گئے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ واقعے کی مکمل تصویر حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔

انکوائری کا مقصد یہ تھا کہ آیا ملازمین نے واقعی مخصوص برتنوں کا استعمال کیا، اور اگر کیا تو اس کے پیچھے کیا محرکات تھے۔ اس بات پر بھی غور کیا گیا کہ آیا ملازمین کو ان برتنوں کی تخصیص کے بارے میں واضح ہدایات دی گئی تھیں یا نہیں۔ انکوائری رپورٹ کے نتائج کی بنیاد پر، چار ملازمین کے خلاف تادیبی کارروائی کا آغاز کیا گیا۔

ملازمین کے خلاف تادیبی کارروائی:

انکوائری رپورٹ کی روشنی میں، چاروں ملازمین کو ان کے مبینہ “جرم” کی پاداش میں تادیبی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ تادیبی کارروائی کی نوعیت (مثلاً، معطلی، برطرفی، یا جرمانہ) کی تفصیلات فی الحال واضح نہیں ہیں، لیکن یہ اقدام اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عدالتی پروٹوکول کی خلاف ورزی کو کس قدر سنجیدگی سے لیا گیا ہے۔

یہ کارروائی اس بات پر زور دیتی ہے کہ عدالتی اداروں میں نظم و ضبط اور قواعد و ضوابط کی پابندی کو کس قدر اہمیت دی جاتی ہے۔ تاہم، اس واقعے نے یہ بحث بھی چھیڑ دی ہے کہ کیا ایسے معمولی نوعیت کے واقعات پر اتنی سخت کارروائی ضروری ہے، خاص طور پر جب یہ نچلے درجے کے ملازمین سے متعلق ہو جو شاید بنیادی سہولیات کی کمی کا شکار ہوں۔

معاشرتی اور اخلاقی مضمرات:

یہ واقعہ پاکستان کے معاشرتی ڈھانچے میں موجود طبقاتی تفریق اور اس کے عدالتی نظام پر اثرات کو نمایاں کرتا ہے۔

  • طبقاتی تقسیم: “معزز” جج صاحبان کے لیے مخصوص برتنوں کا تصور ہی معاشرے میں موجود شدید طبقاتی تقسیم کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ سوال اٹھاتا ہے کہ کیا انسانی بنیادی ضروریات، جیسے کھانا پینا، بھی طبقاتی بنیادوں پر تقسیم کی جانی چاہئیں؟
  • انسانی وقار: ملازمین کے خلاف اس نوعیت کی کارروائی انسانی وقار اور بنیادی حقوق کے حوالے سے سوالات کھڑے کرتی ہے۔ کیا ایک ویٹر یا سویپر کا مخصوص برتنوں میں کھانا کھانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس پر تفصیلی انکوائری اور تادیبی کارروائی کی جائے؟
  • عدلیہ کا تاثر: یہ واقعہ عام عوام میں عدلیہ کے تاثر کو متاثر کر سکتا ہے۔ اگر عدلیہ کے اندر ہی اس طرح کی طبقاتی تفریق اور سخت پروٹوکول موجود ہیں، تو یہ عام آدمی کے لیے انصاف کے نظام کی رسائی اور مساوات کے تصور پر سوال اٹھا سکتا ہے۔
  • اخلاقیات اور انصاف: یہ واقعہ عدالتی اخلاقیات کے بارے میں بھی بحث کو جنم دیتا ہے۔ کیا عدلیہ کو اپنے اندرونی معاملات میں زیادہ انسانیت اور ہمدردی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے؟

ماضی کے واقعات اور عدلیہ کی اصلاحات:

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب عدلیہ کے اندرونی معاملات اور پروٹوکول پر سوالات اٹھے ہوں۔ ماضی میں بھی ججز کے لیے مخصوص سہولیات، ان کے طرز زندگی، اور عدالتی عملے کے ساتھ ان کے تعلقات پر بحث ہوتی رہی ہے۔ پاکستان میں عدلیہ کی آزادی اور اس کی کارکردگی پر ہمیشہ سے توجہ دی جاتی رہی ہے، لیکن ایسے واقعات عدلیہ کے اندرونی ڈھانچے اور اس کے انسانی پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں۔

عدلیہ کی اصلاحات کا مطالبہ ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے، جس میں نہ صرف قانونی اور عدالتی عمل کو بہتر بنانا شامل ہے بلکہ عدالتی اداروں کے اندر انسانی حقوق اور ملازمین کی فلاح و بہبود کو بھی یقینی بنانا ہے۔ یہ واقعہ اس بات کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے کہ عدلیہ کو اپنے اندرونی پروٹوکولز اور قواعد کا جائزہ لینا چاہیے تاکہ وہ معاشرے کے لیے انصاف اور مساوات کی ایک حقیقی مثال بن سکے۔

نتیجہ:

جی او آر لاہور کے ججز ریسٹ ہاؤس میں “معزز” برتنوں کے استعمال پر چار ملازمین کے خلاف کارروائی کا واقعہ ایک چھوٹی سی تفصیل سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ پاکستان میں عدالتی نظام کے اندر موجود طبقاتی تفریق، پروٹوکول کی سختی، اور انسانی وقار کے بارے میں اہم سوالات اٹھاتا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے کی گئی تفصیلی انکوائری اور اس کے بعد کی تادیبی کارروائی نے اس بحث کو مزید تقویت دی ہے۔

یہ واقعہ عدلیہ کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ اپنے اندرونی معاملات کا از سر نو جائزہ لے اور ایسے قواعد و ضوابط وضع کرے جو نہ صرف عدالتی وقار کو برقرار رکھیں بلکہ انسانیت اور مساوات کے اصولوں پر بھی مبنی ہوں۔ عوام میں عدلیہ کا اعتماد برقرار رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ صرف عدالت کے باہر ہی نہیں بلکہ اپنے اندرونی ڈھانچے میں بھی انصاف اور مساوات کی مثال قائم کرے۔ یہ واقعہ ایک یاد دہانی ہے کہ حقیقی انصاف کا دائرہ صرف قانونی فیصلوں تک محدود نہیں، بلکہ اس میں انسانیت اور وقار کا احترام بھی شامل ہے۔

صفراوادی‘: انڈونیشیا کا وہ ’مقدس غار جہاں مکہ تک پہنچانے والی خفیہ سرنگ‘ موجود ہے جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے کیا دیکھا؟ سی ڈی اے ہسپتال میں لفٹ خراب ٹریفک پولیس جدید طریقہ واردات