Site icon URDU ABC NEWS

پاکستان میں نئے صوبوں کی تشکیل: وفاقی حکومت کا بڑا فیصلہ

New provinces

رپورٹ: اختر روہیلہ، وائس آف پاکستان

اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) — پاکستان کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہونے جا رہا ہے جہاں وفاقی حکومت نے ملک کے انتظامی ڈھانچے میں انقلابی تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق، ملک کو بارہ (12) نئے صوبوں میں تقسیم کرنے کا حتمی منصوبہ تیار کر لیا گیا ہے جس کا بنیادی مقصد ملک سے نسلی اور لسانی بنیادوں پر سیاست کا خاتمہ کرنا اور وفاق کو زیادہ مستحکم بنانا ہے۔ یہ ایک ایسا قدم ہے جس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور ملک کی سیاسی و انتظامی تاریخ کو ایک نئی سمت دے گا۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان کا موجودہ صوبائی ڈھانچہ جو 1970ء کی دہائی سے چلا آ رہا ہے، بڑی حد تک لسانی بنیادوں پر قائم ہے۔ اس کی وجہ سے نہ صرف وسائل کی منصفانہ تقسیم میں مسائل درپیش ہیں بلکہ وفاقی حکومت اور صوبائی اکائیوں کے درمیان ہم آہنگی میں بھی رکاوٹیں آتی ہیں۔ نئے انتظامی ڈھانچے کی تشکیل سے ترقیاتی فنڈز کی منصفانہ اور مساوی تقسیم ممکن ہو سکے گی، گورننس کا نظام تیز اور موثر ہو جائے گا، اور ہر علاقے کے عوام تک حکومتی سہولیات کی رسائی آسان ہو جائے گی۔

عالمی مثالیں اور حکمت عملی

اس طرح کی انتظامی تقسیم کی حکمت عملی دنیا کے کئی بڑے ممالک میں کامیاب ثابت ہوئی ہے۔ بھارت، نائیجیریا اور ایتھوپیا جیسی کثیر لسانی اور کثیر الثقافتی ریاستوں نے چھوٹے صوبے بنا کر نہ صرف ترقی کی رفتار کو تیز کیا بلکہ اپنے وفاق کو بھی مضبوط بنایا۔ پاکستان میں بھی اسی حکمت عملی کو اپنا کر ملک کے چاروں کونوں تک ترقی اور خوشحالی پہنچانے کا ارادہ ہے۔

ذرائع کے مطابق، وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ موجودہ چاروں صوبوں — پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا— کو ختم کر کے انہیں چھوٹے انتظامی یونٹس میں تقسیم کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ، کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھی مزید اختیارات دیے جائیں گے تاکہ وہاں کے عوام بھی ترقی کے ثمرات سے مستفید ہو سکیں۔

مجوزہ 12 صوبوں کی تفصیل اور ہیڈکوارٹرز

1️⃣ پنجاب (4 صوبے)

2️⃣ بلوچستان (4 صوبے)

3️⃣ خیبر پختونخوا (2 صوبے)

4️⃣ سندھ (2 صوبے)

ممکنہ طریقہ کار اور عمل درآمد کا ٹائم لائن

اس بڑے انتظامی منصوبے پر عمل درآمد کے لیے ایک منظم اور جامع ٹائم لائن تیار کی گئی ہے۔

ممکنہ ردعمل اور عالمی تناظر

اس بڑے فیصلے پر عوام اور سیاسی حلقوں کی طرف سے مختلف ردعمل کی توقع ہے۔ شہری علاقوں میں عام لوگ اس فیصلے کا خیرمقدم کر سکتے ہیں، جبکہ دیہی علاقوں میں اس پر محتاط ردعمل کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں، وفاقی جماعتیں اس کا کریڈٹ لینے کی دوڑ میں شامل ہوں گی، جبکہ نسلی اور لسانی بنیادوں پر قائم قوم پرست جماعتوں کی طرف سے ممکنہ طور پر احتجاج کی لہر اٹھ سکتی ہے۔

عالمی میڈیا اس فیصلے کو پاکستان کی سب سے بڑی انتظامی ریفارم قرار دے سکتا ہے۔ یہ اقدام نہ صرف پاکستان کے اندرونی استحکام کو بڑھائے گا بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ملک کی ترقی پسند سوچ کا عکاس ہو گا۔ یہ ایک جرات مندانہ فیصلہ ہے جو پاکستان کو ایک نئے اور مضبوط انتظامی ڈھانچے کی طرف لے جائے گا۔

Exit mobile version