google-site-verification=aZNfMycu8K7oF6lNUgjpjoa8ZAyM0qfHriwatL8flQ4
New question in scientific world

امریکی ماہرِ فلکی طبیعیات (Astrophysicist) ایڈم فرینک اور ناسا کے انسٹی ٹیوٹ فار اسپیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر گیون شمٹ کے مابین ہونے والی ایک حیران کن گفتگو نے سائنس کی دنیا میں ایک نئے اور دلچسپ سوال کو جنم دیا ہے۔ یہ سوال ‘سیلورین ہائپوتھیسس’ (Silurian hypothesis) کے گرد گھومتا ہے: کیا کروڑوں سال پہلے زمین پر ایک ایسی تکنیکی طور پر ترقی یافتہ تہذیب موجود تھی جو ہم سے پہلے تھی اور بغیر کسی نشان کے غائب ہو گئی؟

بی بی سی ورلڈ سروس کے پروگرام ‘کراؤڈ سائنس’ میں بات کرتے ہوئے، ایڈم فرینک نے بتایا کہ جب انہوں نے اپنے ساتھی شمٹ سے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ زمین پر ہم سے پہلے کوئی دوسری تہذیب موجود نہیں تھی، تو شمٹ نے چونکا دینے والا سوال کیا: “آپ کو یہ کیسے معلوم؟”

‘سیلورین ہائپوتھیسس’ کیا ہے؟

‘سیلورین ہائپوتھیسس’ ایک ایسا سائنسی نظریہ ہے جو یہ تجویز کرتا ہے کہ اگر کروڑوں سال پہلے ایک ٹیکنالوجی میں ترقی یافتہ تہذیب زمین پر موجود تھی، تو ہم اس کا کوئی بھی واضح سراغ تلاش کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔

فوسلز کی کمی کا مسئلہ

عام طور پر، ہم ڈائنوسار جیسی قدیم انواع کے بارے میں معلومات ان کے فوسلز (چٹانوں میں محفوظ شدہ باقیات) سے حاصل کرتے ہیں۔ تاہم، ایڈم فرینک کا مؤقف ہے کہ فوسلز اس ہائپوتھیسس کو ثابت کرنے میں مدد نہیں کریں گے [02:45]۔

  • چھوٹا دورانیہ: ارضیاتی وقت (Geological Time) کے پیمانے پر، دس ہزار سال بھی ‘پلک جھپکنے’ جتنا مختصر عرصہ ہے [03:08]۔
  • بہت کم فوسلز: زمین پر موجود زندگی کا صرف ایک بہت چھوٹا حصہ ہی فوسل بنتا ہے [03:16]۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک تہذیب اتنے قلیل عرصے کے لیے موجود ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے پیچھے فوسلز کی شکل میں کوئی قابلِ ذکر ثبوت نہ چھوڑے۔

ہمارے اپنے نشانات اور اعتراضات

ناقدین اس نظریے پر اعتراض کرتے ہیں کہ آج ہماری اپنی تہذیب، جس میں پلاسٹک اور کنکریٹ جیسے انسان ساختہ مواد شامل ہیں، زمین کی پرت (Earth’s crust) میں محفوظ ہو رہے ہیں اور یہ بہت لمبے عرصے تک برقرار رہیں گے [03:47]۔ اس بنیاد پر، ایک قدیم ٹیکنالوجی یافتہ تہذیب کو بھی اسی طرح کے پائیدار نشانات چھوڑنے چاہیے تھے۔

ایڈم فرینک کا کہنا ہے کہ سائنس میں سچائی تک پہنچنے کے لیے کسی بھی نئے ثبوت یا اعتراض کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔ وہ زور دیتے ہیں کہ سائنسدانوں کو مل کر کسی بھی نتیجے پر عام اتفاق رائے (Consensus) پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے [04:42]۔

بنیادی سائنسی حقائق

اس دلچسپ نظریے کے ساتھ، اس پروگرام میں زمین کی عمر سے متعلق ایک اہم حقیقت بھی واضح کی گئی۔ سائنسدانوں کے اندازے کے مطابق زمین کی عمر 4.5 بلین سال ہے، نہ کہ 5.5 بلین سال [05:07]۔

اس مباحثے کا خلاصہ یہ ہے کہ ‘سیلورین ہائپوتھیسس’ سائنسدانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ہم وہ پہلی ٹیکنالوجی میں ترقی یافتہ مخلوق نہ ہوں جو اس سیارے پر موجود ہے، اور یہ کہ کائنات میں موجود دیگر سیاروں پر زندگی کی تلاش سے پہلے ہمیں اپنے ہی گھر (زمین) کی قدیم تاریخ پر مزید گہرائی سے غور کرنا چاہیے۔

مزید جانیں: اس بحث اور استعمال ہونے والی انگریزی اصطلاحات کی تفصیلات کے لیے آپ بی بی سی لرننگ انگلش کی ویب سائٹ ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

ویڈیو کا ربط: http://www.youtube.com/watch?v=DJSvLo9dA9U

About The Author

صفراوادی‘: انڈونیشیا کا وہ ’مقدس غار جہاں مکہ تک پہنچانے والی خفیہ سرنگ‘ موجود ہے جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے کیا دیکھا؟ سی ڈی اے ہسپتال میں لفٹ خراب ٹریفک پولیس جدید طریقہ واردات