google-site-verification=aZNfMycu8K7oF6lNUgjpjoa8ZAyM0qfHriwatL8flQ4
Peshawar High Court reacts for opposition members

پشاور: صوبائی حکومت کو اس وقت سبکی کا سامنا کرنا پڑا جب پشاور ہائی کورٹ نے ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ انیشیٹو (ڈی ڈی آئی) پروگرام کے تحت جاری ترقیاتی منصوبوں کے خلاف حکم امتناع جاری کر دیا۔ عدالت نے حکومت سے اس متنازعہ سکیم پر تفصیلی جواب بھی طلب کر لیا ہے، جس سے اپوزیشن جماعتوں کے ان الزامات کو تقویت ملی ہے کہ حکومت ترقیاتی فنڈز کی تقسیم میں امتیازی سلوک روا رکھ رہی ہے۔

پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس فضل سبحان اور جسٹس فرح جمشید پر مشتمل دو رکنی بنچ نے اپوزیشن ارکان کی جانب سے دائر رٹ درخواست کی سماعت کی۔ درخواست گزاروں، جن میں مسلم لیگ (ن) کے رکن صوبائی اسمبلی ملک طارق اعوان، نثار باز اور ارباب وسیم شامل تھے، کی نمائندگی بیرسٹر سلطان محمد خان ایڈوکیٹ نے کی۔

سماعت کے دوران بیرسٹر سلطان نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکلان منتخب عوامی نمائندے ہیں لیکن صوبائی حکومت اپوزیشن سے تعلق رکھنے کی وجہ سے انہیں ترقیاتی فنڈز سے محروم رکھ رہی ہے۔ انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ حکومت کی جانب سے جاری کردہ ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ انیشیٹو سکیم (ڈی ڈی آئی) بھی امتیازی سلوک کی ایک مثال ہے، جس میں اپوزیشن ارکان اسمبلی کے حلقوں کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ بیرسٹر سلطان نے استدعا کی کہ عدالت ڈی ڈی آئی سکیم پر فوری طور پر حکم امتناع جاری کرے تاکہ انصاف یقینی بنایا جا سکے۔

عدالت نے دلائل سننے کے بعد ڈی ڈی آئی سکیم پر حکم امتناع جاری کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو نوٹس جاری کر دیا اور اس سکیم کے حوالے سے جواب طلب کر لیا۔

عدالت کے اس فیصلے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی ملک طارق اعوان نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو زبردست سراہا۔ انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ میرٹ کی بنیاد پر کیا گیا ہے اور ہماری عدالتوں نے ہمیشہ انصاف کو مقدم رکھا ہے۔ ملک طارق اعوان نے مزید کہا کہ ترقیاتی فنڈز ان کے حلقے کے عوام کا حق ہے اور اس حق کے حصول کے لیے وہ ہر ممکن حد تک جائیں گے۔ انہوں نے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے حلقے کے عوام کے حقوق کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔

اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے یہ الزامات تواتر سے سامنے آتے رہے ہیں کہ خیبر پختونخوا حکومت ترقیاتی فنڈز صرف حکومتی ارکان میں تقسیم کر رہی ہے اور اپوزیشن ارکان کے حلقوں کو ترقیاتی کاموں سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ اپوزیشن کا موقف ہے کہ وہ بھی منتخب عوامی نمائندے ہیں اور ان کے حلقوں میں بھی ترقیاتی کاموں کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی حکومتی ارکان کے حلقوں میں۔ اپوزیشن نے یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ صوبائی حکومت نہ صرف اپنے منتخب ارکان بلکہ انتخابات ہارنے والوں کو بھی نواز رہی ہے، جو کہ سراسر ناانصافی اور امتیازی سلوک ہے۔

پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے حکم امتناع جاری ہونے کے بعد اب گیند صوبائی حکومت کے کورٹ میں ہے۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ حکومت عدالت میں کیا جواب جمع کراتی ہے اور کیا اپوزیشن اس قانونی جنگ میں کامیابی حاصل کر پاتی ہے۔ فی الحال، پشاور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ اپوزیشن کے لیے ایک بڑی اخلاقی فتح اور حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکا سمجھا جا رہا ہے۔

سی ڈی اے ہسپتال میں لفٹ خراب ٹریفک پولیس جدید طریقہ واردات