کم داخلوں کے سبب 9 شعبے بند
پشاور: خیبر پختونخوا (کے پی) کی سب سے بڑی یونیورسٹی نے طلباء کی کم تعداد اور بڑھتے ہوئے مالیاتی بوجھ کے پیش نظر ایک بڑا انتظامی فیصلہ کرتے ہوئے نو (9) مختلف شعبہ جات کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اقدام صوبے کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو درپیش معاشی اور داخلوں سے متعلق چیلنجز کی عکاسی کرتا ہے۔
فیصلے کی وجوہات
یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق، یہ شعبے کئی تعلیمی سیشنز سے “زیرو ایڈمیشن” یا انتہائی کم داخلہ شرحوں کا سامنا کر رہے تھے، جس کے باعث انہیں برقرار رکھنا مالی طور پر غیر مستحکم ہو چکا تھا۔ یونیورسٹیوں کے مالی وسائل محدود ہونے کے سبب، ایسے شعبہ جات جن میں داخلہ لینے والے طلباء نہ ہونے کے برابر ہوں، انہیں جاری رکھنا وسائل کا ضیاع سمجھا جاتا ہے۔
انتظامیہ کا موقف:
یونیورسٹی ذرائع نے بتایا کہ ان شعبہ جات کو بند کرنے کا فیصلہ “تعلیمی معیار اور مالی استحکام” کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی کا زور اب ان شعبوں پر ہے جہاں طلباء کا رجحان زیادہ ہے اور جو مارکیٹ کی موجودہ ضروریات کے مطابق ہیں۔
بند کیے جانے والے شعبہ جات
جن 9 شعبہ جات کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ان میں زیادہ تر وہ مضامین شامل ہیں جن کی ملازمت کے بازار میں مانگ کم ہوئی ہے یا وہ ایسے تخصصی شعبے ہیں جہاں طلباء کم دلچسپی لے رہے تھے۔ اس فیصلے کا اطلاق آئندہ تعلیمی سیشن سے ہوگا۔
قابل ذکر تفصیلات:
- بند کیے جانے والے شعبہ جات میں تدریسی عملے (فیکلٹی) کو فارغ نہیں کیا جائے گا۔ اساتذہ کو ان شعبوں میں منتقل کیا جائے گا جہاں متعلقہ مضامین کی تعلیم دی جاتی ہے یا جہاں تدریسی عملے کی کمی ہے۔
- یونیورسٹی انتظامیہ نئے اور مارکیٹ کے مطابق شعبے کھولنے کے لیے فنڈز کو ری ڈائریکٹ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے تاکہ جدید علوم کی طرف طلباء کو راغب کیا جا سکے۔
اعلیٰ تعلیمی اداروں کو درپیش چیلنجز
کے پی کی سب سے بڑی یونیورسٹی کا یہ اقدام ملک بھر کی یونیورسٹیوں کو درپیش مالیاتی بحران اور داخلوں میں کمی کے وسیع تر رجحان کو نمایاں کرتا ہے۔
- مالی دباؤ: اعلیٰ تعلیمی کمیشن (HEC) سے فنڈنگ میں کمی اور بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے کئی یونیورسٹیاں مالی دباؤ کا شکار ہیں۔
- طلباء کا رجحان: روایتی مضامین سے ہٹ کر طلباء کا رجحان تیزی سے کمپیوٹر سائنس، انفارمیشن ٹیکنالوجی، اور دیگر پیشہ ورانہ ڈگریوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔
- انتظامی نظرثانی: یہ فیصلہ یونیورسٹیوں کو اس بات پر مجبور کرے گا کہ وہ اپنے نصاب اور تعلیمی پیشکشوں کا تنقیدی جائزہ لیں اور ایسے پروگرامز کو ترجیح دیں جو طلباء کو عملی زندگی میں کامیاب ہونے میں مدد دے سکیں۔
اس فیصلے کو خیبر پختونخوا کے تعلیمی حلقوں میں ملا جلا ردعمل ملا ہے۔ کچھ ماہرین نے اسے “ضروری اصلاحی اقدام” قرار دیا ہے جبکہ دیگر نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس سے بعض اہم علمی شعبوں کی تعلیم متاثر ہو سکتی ہے۔ تاہم، یونیورسٹی کی توجہ اب ایسے پروگرامز کو تقویت دینے پر مرکوز ہے جو کے پی کے نوجوانوں کے لیے روزگار کے بہتر مواقع پیدا کر سکیں۔
