google-site-verification=aZNfMycu8K7oF6lNUgjpjoa8ZAyM0qfHriwatL8flQ4
Police officials kidnapped in Waziristan

فوری خبر: خیبر پختونخوا کے جنوبی وزیرستان میں گشت کے دوران 7 پولیس اہلکار لاپتہ، تلاش جاری

تاریخ: 20 جولائی 2025

تعارف:

خیبر پختونخوا کے حساس ضلع جنوبی وزیرستان میں سیکیورٹی کی صورتحال ایک بار پھر تشویشناک ہو گئی ہے، جہاں اتوار کے روز گشت کے دوران دو الگ الگ واقعات میں دو مختلف تھانوں سے تعلق رکھنے والے سات پولیس اہلکاروں کو مبینہ طور پر اغوا کر لیا گیا۔ اس واقعے نے علاقے میں خوف و ہراس پھیلا دیا ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے ہیں۔ حکام نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے لاپتہ اہلکاروں کی تلاش کے لیے بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کر دیا ہے۔

واقعے کی تفصیلات: دو الگ واقعات میں اغوا

اپر ساؤتھ وزیرستان کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) ارشد خان نے اس افسوسناک واقعے کی تصدیق کی ہے۔ ان کے مطابق، یہ واقعات ایک ہی روز، اتوار کو، دو مختلف علاقوں میں پیش آئے جب پولیس اہلکار اپنے معمول کے گشت پر تھے۔

لڈھا تھانے کی حدود:

پہلے واقعے میں، لڈھا تھانے کی حدود میں گشت کے دوران تین پولیس اہلکار لاپتا ہوئے۔ ڈی پی او ارشد خان نے نجی ٹی وی کو بتایا کہ “سات پولیس اہلکار گشت پر تھے جب نامعلوم افراد انہیں اپنے ساتھ لے گئے۔” لڈھا تھانے سے لاپتا ہونے والے اہلکاروں کی شناخت انصاف، عابد، اور اسماعیل کے نام سے ہوئی ہے۔ یہ اہلکار اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران اغوا کر لیے گئے، جس سے علاقے میں سیکیورٹی اہلکاروں کی حفاظت پر سوال اٹھ گئے ہیں۔

سروکئی تھانے کی حدود:

دوسرا واقعہ، جو اسی نوعیت کا ہے، ٹانگہ چگملئی کے علاقے میں پیش آیا، جو سروکئی تھانے کی حدود میں آتا ہے۔ اس واقعے میں چار پولیس اہلکار لاپتا ہوئے۔ ان میں سب انسپکٹر عبد الخالق اور کانسٹیبلز عرفان اللہ، حبیب اللہ، اور عمران شامل ہیں۔ ان اہلکاروں کے اغوا نے سیکیورٹی اداروں کے لیے ایک نیا چیلنج کھڑا کر دیا ہے، کیونکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ عسکریت پسند عناصر اب بھی علاقے میں سرگرم ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ڈی پی او کا بیان اور تلاش کی کوششیں:

ڈی پی او ارشد خان نے لاپتا ہونے والے اہلکاروں کی تلاش کے لیے جاری کوششوں کی تصدیق کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ “لاپتا ہونے والے اہلکاروں کی تلاش کے لیے کوششیں جاری ہیں۔” پولیس اور دیگر سیکیورٹی ادارے مشترکہ طور پر ایک بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن کر رہے ہیں تاکہ اغوا کیے گئے اہلکاروں کو بحفاظت بازیاب کرایا جا سکے۔ علاقے میں ناکہ بندی کر دی گئی ہے اور مشتبہ افراد کی تلاش جاری ہے۔ تاہم، ابھی تک کوئی خاطر خواہ پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔

جنوبی وزیرستان میں سیکیورٹی صورتحال کا پس منظر:

جنوبی وزیرستان، خیبر پختونخوا کا ایک قبائلی ضلع ہے جو ماضی میں عسکریت پسندی اور دہشت گردی سے بری طرح متاثر رہا ہے۔ اگرچہ پاک فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں نے علاقے میں کامیاب آپریشنز کے ذریعے امن و امان کی صورتحال کو کافی حد تک بہتر بنایا ہے، لیکن اب بھی کچھ علاقوں میں عسکریت پسندوں کی موجودگی اور ان کی سرگرمیاں رپورٹ ہوتی رہتی ہیں۔ پولیس اہلکاروں کا اغوا اس بات کا اشارہ ہے کہ علاقے میں سیکیورٹی چیلنجز ابھی بھی موجود ہیں اور انہیں مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔

واقعے کے مضمرات اور تشویش:

پولیس اہلکاروں کے اغوا کا یہ واقعہ کئی حوالوں سے تشویشناک ہے۔

  • سیکیورٹی اہلکاروں کی حفاظت: یہ واقعہ سیکیورٹی اہلکاروں کی حفاظت پر سوال اٹھاتا ہے، جو اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر عوام کی حفاظت کے لیے فرائض انجام دیتے ہیں۔
  • عوامی اعتماد: ایسے واقعات عوام میں خوف و ہراس پیدا کرتے ہیں اور سیکیورٹی اداروں پر ان کے اعتماد کو متاثر کر سکتے ہیں۔
  • عسکریت پسندی کی بحالی کے خدشات: یہ واقعہ اس خدشے کو جنم دیتا ہے کہ علاقے میں عسکریت پسند عناصر دوبارہ منظم ہو رہے ہیں اور اپنی کارروائیاں تیز کر رہے ہیں۔
  • قانون نافذ کرنے والے اداروں پر دباؤ: پولیس اہلکاروں کا اغوا قانون نافذ کرنے والے اداروں پر دباؤ بڑھاتا ہے، جو پہلے ہی محدود وسائل کے ساتھ مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں۔

آئندہ اقدامات اور حکمت عملی:

اس واقعے کے بعد، حکام کو جنوبی وزیرستان میں سیکیورٹی حکمت عملی کا دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اغوا کیے گئے اہلکاروں کی بازیابی کے ساتھ ساتھ، علاقے میں عسکریت پسندوں کے خلاف مزید مؤثر کارروائیوں کی ضرورت ہے تاکہ ایسے واقعات کو مستقبل میں روکا جا سکے۔ مقامی آبادی کے تعاون سے انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مضبوط بنانا بھی ضروری ہے تاکہ مشتبہ افراد اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جا سکے۔

نتیجہ:

جنوبی وزیرستان میں سات پولیس اہلکاروں کا اغوا ایک انتہائی سنگین واقعہ ہے جو خیبر پختونخوا میں سیکیورٹی کی صورتحال کی نزاکت کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف لاپتہ اہلکاروں کے خاندانوں کے لیے تشویش کا باعث ہے بلکہ پورے ملک کے لیے ایک الارم ہے۔ امید ہے کہ حکام لاپتہ اہلکاروں کو جلد از جلد بازیاب کرانے میں کامیاب ہوں گے اور علاقے میں امن و امان کی صورتحال کو مزید بہتر بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں گے۔ یہ وقت ہے کہ تمام متعلقہ ادارے مل کر کام کریں تاکہ ایسے عناصر کو شکست دی جا سکے جو پاکستان میں امن و استحکام کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

صفراوادی‘: انڈونیشیا کا وہ ’مقدس غار جہاں مکہ تک پہنچانے والی خفیہ سرنگ‘ موجود ہے جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے کیا دیکھا؟ سی ڈی اے ہسپتال میں لفٹ خراب ٹریفک پولیس جدید طریقہ واردات