
ملک کی دو بڑی اتحادی جماعتوں، پاکستان پیپلز پارٹی (PPP) اور پاکستان مسلم لیگ ن (PML-N)، کی اعلیٰ قیادت نے حالیہ دنوں میں اتحاد میں پیدا ہونے والی دراڑوں کو دور کرنے کے لیے تیزی سے کوششیں شروع کر دی ہیں۔ یہ تناؤ، جو کہ صوبائی تعصب اور تباہ کن سیلاب کے ردعمل پر ہونے والی بیان بازی سے شروع ہوا، حکومت کے استحکام کے لیے خطرہ بن رہا تھا۔ اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے بدھ کے روز دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے ملاقاتیں کیں تاکہ کشیدگی کو کم کیا جا سکے اور اتحاد میں ہم آہنگی کو بچایا جا سکے۔
کشیدگی میں کمی لانے کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے ثالث کا کردار ادا کیا اور اپنے چیمبر میں دونوں فریقین کے درمیان ایک اہم ملاقات کی میزبانی کی۔ لاہور میں، پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی حالیہ تقاریر کو “نامناسب” قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا، جس پر پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے سخت ردعمل دیا اور پیپلز پارٹی پر سیلاب سے متعلق امدادی سرگرمیوں کو سیاست کی نذر کرنے کا الزام عائد کیا۔
بڑھتے ہوئے تناؤ کی وجوہات اور پی پی پی کے مطالبات
اتحاد میں حالیہ کشیدگی کی بنیاد سیلاب کے بعد امدادی کارروائیوں اور مختلف صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم پر تبصرے بنے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے اس بات پر شدید اعتراض کیا کہ جب بھی وہ حکومت کو قومی معاملات پر مشورے دیتے ہیں یا سیلاب متاثرین کی بحالی پر بات کرتے ہیں تو ان کے صوبہ سندھ کو غیر منصفانہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
۱۔ مریم نواز کے بیانات پر پیپلز پارٹی کا اعتراض:
اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات میں، پیپلز پارٹی کے وفد نے، جس کی قیادت سید نوید قمر اور اعجاز جاکھرانی کر رہے تھے، مسلم لیگ ن کی قیادت کے سامنے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے حالیہ بیانات پر اعتراضات اٹھائے۔
- نوید قمر نے اس بات پر زور دیا کہ “اتحادی شراکت داروں کی جانب سے منفی بیانات اتحاد کو نقصان پہنچاتے ہیں” اور خبردار کیا کہ دونوں جانب سے زبانی تبادلے جاری رہنا “نامناسب” ہوگا۔
- لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، قمر زمان کائرہ نے مریم نواز کے اس بیان کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ “جو انگلی اٹھائے گا، اس کے ہاتھ توڑ دیے جائیں گے اور زبانیں خاموش کرا دی جائیں گی”۔ کائرہ نے کہا کہ ایسی زبان اتحادی شراکت دار کے لیے مناسب نہیں ہے۔
۲۔ پی پی پی کے اہم مطالبات اور تحفظات:
قمر زمان کائرہ نے واضح کیا کہ پیپلز پارٹی نے نیک نیتی کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کی حمایت کی ہے، لیکن تحریری معاہدوں پر مکمل عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ ان کے اہم تحفظات اور مطالبات درج ذیل ہیں:
- معاہدوں پر عمل درآمد: اتحاد کی تشکیل کے وقت طے پانے والے تحریری معاہدوں کو مکمل طور پر نافذ کیا جائے۔
- تنقید کا جمہوری حق: کائرہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی صرف مشورے نہیں دیتی بلکہ اپنی رائے بھی رکھتی ہے، اور اگر ان پر عمل نہ ہو تو تنقید کرنا ہمارا جمہوری حق ہے۔
- صوبائی تعصب سے گریز: جب بھی پی پی پی این ایف سی ایلوکیشن یا سیلاب متاثرین کی بحالی جیسے معاملات اٹھاتی ہے، تو سندھ کو غیر منصفانہ طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے، جو وفاق کو کمزور کرتا ہے۔
- اقتدار میں شراکت داری نہیں، مگر احترام: کائرہ نے خبردار کیا کہ “ہم اقتدار میں شراکت داری نہیں مانگ رہے، لیکن ہم حکومت کی حمایت کر رہے ہیں۔ پچھلی بار جب ہم الگ ہوئے تھے، اسے مت بھولیں”۔ انہوں نے کہا کہ اتحادی ہونے کا مطلب “بلینک چیک” دینا نہیں ہے۔
مسلم لیگ (ن) کا سخت ردعمل اور جوابی الزامات
پیپلز پارٹی کی تنقید پر پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور پیپلز پارٹی پر جوابی الزامات لگائے۔
۱۔ سیاست کاری کا الزام:
عظمیٰ بخاری نے کائرہ کے بیانات کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی پنجاب حکومت کے خلاف پریس کانفرنسز کرنے کی “دوڑ” میں لگی ہوئی ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ “آپ سیلاب متاثرین کی تکالیف کو سیاست کی نذر نہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، مگر پنجاب کے خلاف پریس کانفرنسیں کر رہے ہیں؟”
۲۔ ذاتی حملوں پر جوابی وارننگ:
عظمیٰ بخاری نے مریم نواز کو “پنجاب کی بیٹی” قرار دیا اور پیپلز پارٹی پر ایک خاتون رہنما کو اجتماعی طور پر نشانہ بنانے کا الزام لگایا۔ انہوں نے کائرہ کو خبردار کیا:
“جب آپ ذاتی حملے کریں گے، تو اس کے بدلے میں بھی اسی کی توقع رکھیں۔ آپ پنجاب کی بیٹی مریم نواز پر تنقید کرنے سے پہلے اپنی ماضی کی کارکردگی پر ایک نظر ڈالتے۔”
۳۔ پنجاب کے وسائل اور امداد کا دفاع:
بخاری نے زور دیا کہ وزیراعلیٰ مریم نواز، ان کی کابینہ اور صوبائی ادارے پہلے دن سے ہی سیلاب متاثرین کے ساتھ ہیں۔
- انہوں نے کہا کہ پنجاب اپنے وسائل کے معاملے میں کسی کے مشورے کا محتاج نہیں ہے۔
- انہوں نے پیپلز پارٹی کو طعنہ دیا کہ “آپ سندھ میں بی آئی ایس پی (BISP) کے ذریعے متاثرین کو 10,000 روپے دے سکتے ہیں، لیکن مریم نواز پنجاب کے متاثرین کو 10 لاکھ روپے دے رہی ہیں، کیونکہ انہیں اسی کی ضرورت ہے۔”
- انہوں نے دعویٰ کیا کہ پنجاب نے صوبائی فنڈز سے 20,000 کلومیٹر سڑکیں بنائی ہیں اور مریم نواز کے 90 سے زائد منصوبوں کی فنڈنگ وفاق سے ایک روپیہ لیے بغیر کی جا رہی ہے، اور ایک پنجابی ہونے کی حیثیت سے اس پر فخر کرنا چاہیے۔
اتحاد کو بچانے کی کوششیں اور آئندہ کا لائحہ عمل
بڑھتی ہوئی کشیدگی، جسے صوبائیت کا خطرہ سمجھا جا رہا تھا، کی وجہ سے دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادت حرکت میں آئی اور فوری طور پر معاملات کو ٹھنڈا کرنے کی کوششیں کی گئیں۔
۱۔ اسپیکر کی ثالثی:
سردار ایاز صادق کی مداخلت سے اسلام آباد میں ہونے والی میٹنگ میں پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر اور اعجاز جاکھرانی کی قیادت میں وفد نے ڈپٹی پرائم منسٹر اسحاق ڈار، سینیٹر رانا ثناء اللہ اور دیگر مسلم لیگ ن کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔
۲۔ جنگ بندی کا فیصلہ:
طویل بحث و مباحثے کے بعد، دونوں اتحادی جماعتیں اتحاد میں ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف بیانات کی جنگ کو فوری طور پر روکنے پر متفق ہو گئیں۔ اس معاہدے کا مقصد عوامی سطح پر منفی پیغام کو ختم کرنا ہے۔
۳۔ حکومتی استحکام پر ممکنہ اثرات:
اتحاد میں پیدا ہونے والی یہ دراڑیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ پیپلز پارٹی، جو مرکز میں حکومت کی اتحادی ہے لیکن رسمی طور پر کابینہ کا حصہ نہیں ہے، حکومت پر اپنا دباؤ بڑھا رہی ہے۔
- بلیک میلنگ نہیں، بلکہ حق: کائرہ کے اس بیان نے کہ “اتحادی ہونے کا مطلب بلینک چیک دینا نہیں ہے” یہ واضح کر دیا کہ پیپلز پارٹی اب محض ایک رضامند اتحادی رہنے کے بجائے حکومت سے اپنے تحفظات اور مطالبات کو منوانے پر زور دے گی۔
- سیاسی عدم استحکام کا خطرہ: اگرچہ دونوں فریقین نے فوری طور پر بیان بازی روکنے پر اتفاق کیا ہے، لیکن اتحاد کے اندرونی مسائل حل نہ ہونے کی صورت میں یہ تناؤ آئندہ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں حکومتی استحکام کے لیے نئے چیلنجز پیدا کر سکتا ہے، خصوصاً سینیٹ اور دیگر قانونی معاملات میں حمایت کے حصول کے لیے۔
حالیہ پیش رفت نے دونوں جماعتوں کو اس بات کا احساس دلایا ہے کہ حکومت کی بقا کے لیے اتحاد ضروری ہے، اور اس مقصد کے لیے ذاتی یا صوبائی سطح کی بیان بازی سے گریز کرنا ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں جماعتیں زبانی جنگ بندی کے وعدے پر کب تک قائم رہتی ہیں اور پیپلز پارٹی کے تحفظات اور مطالبات کو کس حد تک پورا کیا جاتا ہے۔