
Safe city project di khan
پشاور: خیبر پختونخوا پولیس نے دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ جنوبی اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں اور لکی مروت میں سیف سٹی پراجیکٹس کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔ یہ منصوبہ، جو صوبائی حکومت کی خصوصی ہدایات اور انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبر پختونخوا، ذوالفقار حمید کی سفارشات پر شروع کیا گیا ہے، خطے میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے اور جرائم پر قابو پانے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ سنٹرل پولیس آفس پشاور میں منعقدہ ایک تقریب میں اس انقلابی منصوبے کے باقاعدہ آغاز کے لیے خیبر پختونخوا پولیس اور نیشنل ریڈیو ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن (این آر ٹی سی) کے درمیان کنٹریکٹ ایگریمنٹ پر دستخط کیے گئے۔
منصوبے کا باقاعدہ آغاز اور دستخطی تقریب:
سنٹرل پولیس آفس پشاور میں منعقدہ تقریب میں خیبر پختونخوا پولیس کی جانب سے پراجیکٹ ڈائریکٹر سیف سٹی اور ڈی آئی جی انفارمیشن ٹیکنالوجی رائے اعجاز احمد نے کنٹریکٹ ایگریمنٹ پر دستخط کیے۔ این آر ٹی سی کی جانب سے جنرل منیجر کمرشل سید عامر جاوید نے دستخط کیے۔ اس موقع پر انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبر پختونخوا ذوالفقار حمید سمیت ایڈیشنل آئی جی پیز ہیڈکوارٹر اول خان، آپریشنز محمد علی بابا خیل و ٹریننگ ڈاکٹر محمد اختر عباس، ڈی آئی جیز ہیڈکوارٹر رضوان منظور، آپریشنز ربنواز خان، فنانس فدا حسن، سیکیورٹی ڈاکٹر میاں سعید، ٹریفک کیپٹن (ر) جواد قمر، سی سی پی او پشاور قاسم علی خان، اے آئی جی اسٹبلشمنٹ سونیا شمروز اور پی ایس او برائے آئی جی عمران خان بھی موجود تھے۔ یہ اعلیٰ سطحی شرکت اس منصوبے کی اہمیت اور حکومتی عزم کی عکاسی کرتی ہے۔
منصوبے کی اہمیت اور مقاصد:
انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبر پختونخوا، ذوالفقار حمید نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی اضلاع میں “فتنہ الخوارج” کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو لگام ڈالنے اور ان کی پہچان کر کے ٹھکانے لگانے میں سیف سٹی پراجیکٹ کلیدی کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس منصوبے کی بدولت سٹریٹ کرائمز سمیت دیگر جرائم میں بھی واضح کمی واقع ہوگی۔ آئی جی پی نے سیف سٹی پراجیکٹ کو خیبر پختونخوا پولیس کا ڈیجیٹلائزیشن کی طرف ایک اہم قدم قرار دیا، جو ہر قسم کی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کی شناخت اور ریکارڈ تک فوری رسائی کو یقینی بنائے گا۔
یہ منصوبہ خاص طور پر ان علاقوں کے لیے اہم ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے دہشت گردی اور انتہا پسندی سے متاثر ہیں۔ سیف سٹی پراجیکٹ کے تحت شہروں میں جدید نگرانی کے نظام نصب کیے جائیں گے، جن میں ہائی ریزولوشن کیمرے اور دیگر ٹیکنالوجی شامل ہوگی۔ یہ نظام پولیس کو مجرمانہ سرگرمیوں کی نگرانی، مشتبہ افراد کی شناخت، اور فوری ردعمل میں مدد فراہم کرے گا۔
منصوبے کا دائرہ کار اور تکمیل کا وقت:
یہ منصوبہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں اور لکی مروت میں 6 ماہ کی قلیل مدت میں پایہ تکمیل تک پہنچے گا۔ کنٹریکٹ ایگریمنٹ پر دستخط کے بعد ان اضلاع میں اس انقلابی منصوبے پر کام کا آغاز کر دیا جائے گا۔
منصوبے کے تحت کیمروں کی تنصیب کی تفصیلات بھی فراہم کی گئی ہیں:
- ڈیرہ اسماعیل خان: شہر کے 86 انتہائی اہم مقامات پر 400 سے زائد ہائی ریزولوشن کیمرے نصب کیے جائیں گے۔
- بنوں: 69 مقامات پر 300 سے زائد جدید کیمرے لگائے جائیں گے۔
- لکی مروت: 41 مقامات پر 250 سے زائد ہائی ریزولوشن کیمرے نصب کیے جائیں گے۔
یہ کیمرے نہ صرف جرائم کی روک تھام میں مدد دیں گے بلکہ کسی بھی جرم کی صورت میں شواہد اکٹھے کرنے اور مجرموں کی نشاندہی میں بھی معاون ثابت ہوں گے۔
پشاور سیف سٹی پراجیکٹ کا پس منظر:
واضح رہے کہ انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبر پختونخوا ذوالفقار حمید کی سفارشات پر صوبائی حکومت نے گزشتہ کئی دہائیوں سے تاخیر کے شکار پشاور سیف سٹی پراجیکٹ کو بھی ہنگامی بنیادوں پر شروع کیا تھا اور صوبائی دارالحکومت پشاور میں کام کا آغاز کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی جنوبی اضلاع خصوصاً ڈی آئی خان، بنوں اور لکی مروت میں سروے کا کام شروع کیا گیا تھا۔ سروے مکمل ہونے اور پی سی ون کی منظوری کے بعد ہی ان اضلاع میں سیف سٹی پراجیکٹ کا آج باقاعدہ آغاز کیا گیا ہے۔ پشاور میں حاصل ہونے والے تجربات اور کامیابیوں کو ان نئے منصوبوں میں بھی بروئے کار لایا جائے گا۔
منصوبے کے ممکنہ فوائد:
سیف سٹی پراجیکٹ کے ان اضلاع میں آغاز سے کئی فوائد متوقع ہیں:
- دہشت گردی کی روک تھام: ہائی ریزولوشن کیمروں کی مدد سے مشتبہ سرگرمیوں کی نگرانی کی جا سکے گی، جس سے دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو محدود کرنے اور حملوں کی منصوبہ بندی کو ناکام بنانے میں مدد ملے گی۔
- جرائم میں کمی: سٹریٹ کرائمز، چوری، ڈکیتی، اور دیگر جرائم کو کیمروں کی نگرانی کے ذریعے کم کیا جا سکے گا۔ مجرموں کو پکڑے جانے کا خوف انہیں جرم کرنے سے روکے گا۔
- شواہد کی فراہمی: کسی بھی جرم کی صورت میں، کیمروں کی ریکارڈنگ پولیس کے لیے اہم شواہد فراہم کرے گی، جس سے تفتیش میں تیزی آئے گی اور مجرموں کو سزا دلانے میں مدد ملے گی۔
- فوری ردعمل: مرکزی کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کے ذریعے شہر کی نگرانی سے پولیس کسی بھی ہنگامی صورتحال پر تیزی سے ردعمل دے سکے گی، جس سے جانی و مالی نقصان کو کم کیا جا سکے گا۔
- عوامی اعتماد میں اضافہ: سکیورٹی کی بہتر صورتحال شہریوں میں تحفظ کا احساس پیدا کرے گی اور پولیس پر ان کا اعتماد بڑھے گا۔
- ڈیجیٹلائزیشن اور جدید پولیسنگ: یہ منصوبہ خیبر پختونخوا پولیس کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرے گا، جس سے ان کی آپریشنل صلاحیتیں بڑھیں گی اور وہ 21ویں صدی کے چیلنجز کا بہتر طریقے سے مقابلہ کر سکیں گے۔
- سرحدی اضلاع کا استحکام: ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں اور لکی مروت جیسے اضلاع کی سکیورٹی کو مضبوط کرنا نہ صرف ان علاقوں کے لیے اہم ہے بلکہ پورے صوبے اور ملک کی سکیورٹی کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ یہ اضلاع افغانستان سے ملحقہ سرحدوں کے قریب ہیں اور دہشت گردوں کے لیے آسان گزرگاہیں سمجھے جاتے ہیں۔
چیلنجز اور آگے کا راستہ:
اگرچہ سیف سٹی پراجیکٹ ایک امید افزا قدم ہے، تاہم اس کی کامیابی کے لیے کچھ چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے:
- تکنیکی دیکھ بھال: جدید کیمروں اور نگرانی کے نظام کی مسلسل دیکھ بھال اور اپ گریڈیشن ضروری ہوگی تاکہ ان کی کارکردگی متاثر نہ ہو۔
- ڈیٹا کا انتظام: بڑی مقدار میں ڈیٹا کو محفوظ کرنا، تجزیہ کرنا، اور اس کا مؤثر طریقے سے انتظام کرنا ایک چیلنج ہو سکتا ہے۔
- عملے کی تربیت: پولیس اہلکاروں کو جدید نظاموں کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کے لیے خصوصی تربیت کی ضرورت ہوگی۔
- فنڈنگ: منصوبے کی پائیداری کے لیے مستقل فنڈنگ کا حصول بھی اہم ہوگا۔
- رازداری کے خدشات: شہریوں کی نگرانی سے متعلق رازداری کے خدشات کو دور کرنا اور شفافیت کو یقینی بنانا ضروری ہوگا۔
اس کے باوجود، یہ منصوبہ خیبر پختونخوا پولیس کے عزم کا مظہر ہے کہ وہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہی ہے۔ یہ نہ صرف دہشت گردی اور جرائم کے خلاف جنگ میں ایک اہم ہتھیار ثابت ہوگا بلکہ یہ ان علاقوں میں سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے بھی سازگار ماحول پیدا کرے گا، جہاں سکیورٹی کی صورتحال نے ترقیاتی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
نتیجہ:
جنوبی اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں اور لکی مروت میں سیف سٹی پراجیکٹس کا آغاز خیبر پختونخوا پولیس کی جانب سے ایک اہم اور بروقت اقدام ہے۔ یہ منصوبہ نہ صرف دہشت گردی اور جرائم کے خلاف جنگ میں ایک نئی روح پھونکے گا بلکہ یہ ان علاقوں کے شہریوں کو تحفظ کا احساس بھی فراہم کرے گا۔ 6 ماہ کی قلیل مدت میں اس منصوبے کی تکمیل سے ان شہروں کی سکیورٹی صورتحال میں نمایاں بہتری آنے کی امید ہے، جو بالآخر پورے صوبے کے امن و استحکام میں معاون ثابت ہوگی۔ یہ ڈیجیٹلائزیشن کی طرف ایک اہم قدم ہے جو مستقبل میں پولیسنگ کے نظام کو مزید مؤثر اور شفاف بنائے گا۔