google-site-verification=aZNfMycu8K7oF6lNUgjpjoa8ZAyM0qfHriwatL8flQ4
Shortage of flavour in sindh

کراچی: (رپورٹ: نمائندہ خصوصی) سندھ حکومت کی گندم کی خریداری، ذخیرہ اندوزی اور تقسیم کے حوالے سے مبینہ بدانتظامی اور غفلت کی ایک سنگین تصویر سامنے آئی ہے، جس نے صوبے کی معاشی حالت اور عوام کی بنیادی ضروریات پر گہرے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق، سندھ کے سرکاری گوداموں میں کروڑوں بوریاں گندم سڑ رہی ہیں، جبکہ مزید گندم کی غیر ضروری خریداری نے عوامی قرضوں میں ہوشربا اضافہ کر دیا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف مالی بدعنوانی کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ غریب عوام کے منہ سے نوالہ چھیننے کے مترادف ہے۔

گندم کی کروڑوں بوریوں کا سڑنا: ایک قومی سانحہ

سندھ حکومت کے گوداموں میں گندم کی بڑی مقدار کا سڑنا ایک قومی سانحہ سے کم نہیں۔ رپورٹ کے مطابق، 13.7 ملین بوریاں گندم سرکاری گوداموں میں سڑ گئیں۔ یہ وہ گندم تھی جو عوام کو سستے آٹے کی صورت میں ملنی چاہیے تھی، خاص طور پر ایسے وقت میں جب مہنگائی عروج پر ہے اور آٹے کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ گندم کا سڑنا صرف مالی نقصان نہیں بلکہ غذائی تحفظ کے ایک بڑے بحران کی نشاندہی کرتا ہے۔

گندم ایک بنیادی غذائی جنس ہے اور پاکستان جیسے زرعی ملک میں اس کی وافر مقدار میں پیداوار ہوتی ہے۔ سندھ کا شمار بھی ملک کے اہم گندم پیدا کرنے والے صوبوں میں ہوتا ہے۔ حکومت ہر سال کسانوں سے گندم خریدتی ہے تاکہ انہیں ان کی محنت کا مناسب معاوضہ مل سکے اور ملک میں غذائی تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ تاہم، اس گندم کا سرکاری گوداموں میں سڑ جانا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے:

  • ذخیرہ اندوزی کے ناقص انتظامات: کیا گوداموں میں گندم کو محفوظ رکھنے کے لیے مناسب انتظامات موجود نہیں تھے؟ کیا درجہ حرارت، نمی، اور کیڑوں سے بچاؤ کے لیے ضروری اقدامات نہیں کیے گئے؟
  • انتظامی نااہلی: گندم کی اتنی بڑی مقدار کو سڑنے سے بچانے کے لیے بروقت اقدامات کیوں نہیں کیے گئے؟ کیا متعلقہ حکام نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں؟
  • تقسیم کا فقدان: جب عوام آٹے کے لیے ترس رہے تھے، تو سرکاری گوداموں میں موجود گندم کو سستے نرخوں پر مارکیٹ میں کیوں نہیں لایا گیا؟ کیا یہ جان بوجھ کر کیا گیا تاکہ نجی آٹا مافیا کو فائدہ پہنچایا جا سکے؟

یہ تمام سوالات انتظامی نااہلی، بدعنوانی، اور عوام کی فلاح و بہبود سے غفلت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ گندم کا سڑنا صرف ایک اعداد و شمار نہیں بلکہ لاکھوں غریب خاندانوں کی بھوک اور محرومی کی کہانی ہے۔

غیر ضروری خریداری: ماہرین کے انتباہ کو نظر انداز کرنا

اس صورتحال کو مزید تشویشناک بنانے والا پہلو یہ ہے کہ جب پہلے ہی سرکاری گوداموں میں گندم کا وافر ذخیرہ موجود تھا اور اس کے سڑنے کے خطرات بڑھ رہے تھے، اس کے باوجود سندھ حکومت نے 2024 میں مزید 9 ملین بوریاں گندم خریدیں۔ یہ خریداری ماہرین کے انتباہ کے باوجود کی گئی جنہوں نے ممکنہ نقصان اور غیر ضروری مالی بوجھ کے بارے میں خبردار کیا تھا۔

کسی بھی ملک یا صوبے کی حکومت کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے وسائل کا دانشمندی سے استعمال کرے اور عوامی پیسے کا تحفظ کرے۔ ایسے میں جب گندم کا پہلے سے ہی وافر ذخیرہ موجود ہو اور اس کے سڑنے کے واضح اشارے مل رہے ہوں، مزید خریداری کا فیصلہ غیر ذمہ دارانہ اور مشکوک دکھائی دیتا ہے۔ اس خریداری کے پیچھے کیا محرکات تھے؟

  • کرپشن کے امکانات: کیا یہ خریداری کمیشن حاصل کرنے یا مخصوص افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے کی گئی؟ گندم کی خریداری کے معاہدوں میں شفافیت کا فقدان اکثر بدعنوانی کا باعث بنتا ہے۔
  • غلط منصوبہ بندی: کیا حکومت کے پاس گندم کی پیداوار اور کھپت کا درست تخمینہ نہیں تھا؟ ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے عوام کے پیسے کا ضیاع ہوا۔
  • سیاسی مقاصد: کیا یہ خریداری سیاسی مقاصد کے لیے کی گئی تاکہ کسانوں کو خوش کیا جا سکے، چاہے اس کا نتیجہ عوامی وسائل کے ضیاع کی صورت میں ہی کیوں نہ نکلے؟

ماہرین نے بارہا خبردار کیا تھا کہ زائد گندم کی خریداری سے نہ صرف مالی بوجھ بڑھے گا بلکہ اس کے ذخیرہ کرنے کے مسائل بھی پیدا ہوں گے۔ ان انتباہات کو نظر انداز کرنا ایک سنگین غلطی تھی جس کے نتائج اب واضح ہو رہے ہیں۔

مالیاتی بوجھ: ماہانہ سود اور گودام کے اخراجات

گندم کی اس غیر ضروری خریداری اور ذخیرہ اندوزی نے صوبائی خزانے پر ایک بہت بڑا مالی بوجھ ڈال دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ماہانہ 2.43 ارب روپے صرف سود اور گودام کے اخراجات پر خرچ ہو رہے ہیں۔ یہ ایک ہوشربا رقم ہے جو ہر ماہ عوامی پیسے سے ادا کی جا رہی ہے، صرف اس گندم کو ذخیرہ کرنے کے لیے جو سڑ رہی ہے یا سڑ چکی ہے۔

اس رقم کا تصور کریں: 2.43 ارب روپے ماہانہ! یہ رقم سندھ جیسے صوبے میں تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر، یا غربت کے خاتمے کے پروگراموں پر خرچ کی جا سکتی تھی۔ یہ رقم ہزاروں بے روزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کر سکتی تھی، یا لاکھوں بچوں کو بہتر تعلیم دے سکتی تھی۔ لیکن اس کے بجائے، یہ رقم صرف گندم کو سڑنے اور اس پر سود ادا کرنے پر خرچ ہو رہی ہے۔

یہ اخراجات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں جب ہم اس میں گندم کی خریداری کی اصل لاگت، اس کی نقل و حمل، اور پھر اس کے سڑنے سے ہونے والے نقصان کو بھی شامل کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ عوامی قرضوں میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔

مجموعی عوامی قرضہ: ایک خطرناک حد تک اضافہ

گندم کی اس بدانتظامی کا سب سے براہ راست اور خطرناک نتیجہ مجموعی عوامی قرضہ میں 181 ارب روپے تک کا اضافہ ہے۔ یہ ایک بہت بڑی رقم ہے جو سندھ کے عوام پر بلاوجہ کا بوجھ بن گئی ہے۔ یہ قرضہ آنے والی نسلوں کو بھی متاثر کرے گا، کیونکہ انہیں اس قرض کو ادا کرنا پڑے گا جو ان کے لیے کوئی فائدہ نہیں لایا بلکہ صرف نقصان کا باعث بنا۔

عوامی قرضہ کسی بھی صوبے کی معاشی صحت کا ایک اہم اشارہ ہوتا ہے۔ جب قرضے بڑھتے ہیں تو حکومت کے پاس ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کرنے کے لیے کم وسائل رہ جاتے ہیں، اور اسے قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے لینے پڑتے ہیں، جو ایک شیطانی چکر بن جاتا ہے۔ 181 ارب روپے کا یہ قرضہ سندھ کی معیشت پر ایک اضافی دباؤ ہے، جو اسے پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن ہونے سے روک سکتا ہے۔

اس قرضے میں اضافہ کی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے گندم کی خریداری کے لیے بینکوں سے قرضے لیے، اور اب وہ ان قرضوں پر سود ادا کر رہی ہے۔ چونکہ گندم سڑ چکی ہے، اس لیے اس کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی نہیں مل سکے گی، جس سے یہ قرضہ مزید بڑھتا جائے گا۔ یہ ایک سنگین مالیاتی بحران کی صورتحال ہے۔

غریب کی پلیٹ خالی، گودام بھرے: بھوک پر سیاست

اس صورتحال کا سب سے دردناک اور اخلاقی طور پر ناقابل قبول پہلو یہ ہے کہ جب گندم اب انسانی استعمال کے قابل نہیں رہی، جب کہ غریب عوام آٹا خریدنے سے قاصر ہیں۔ یہ ایک ایسا تضاد ہے جو کسی بھی مہذب معاشرے کے لیے شرم کا باعث ہونا چاہیے۔

“جب غریب کی پلیٹ خالی ہو، تو گودام بھرے ہونے کا کیا فائدہ؟” یہ سوال اس نظام پر ایک طمانچہ ہے جو اپنے عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ایک طرف، حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ اس نے کسانوں سے گندم خرید کر انہیں سہولت فراہم کی، لیکن دوسری طرف، اسی گندم کو سڑنے دیا گیا اور غریب عوام کو سستے آٹے سے محروم رکھا گیا۔

یہ صرف انتظامی نااہلی نہیں، یہ بھوک پر سیاست ہے! یہ ایک ایسا عمل ہے جہاں حکومتی پالیسیاں اور فیصلے عوام کی فلاح و بہبود کے بجائے ذاتی مفادات یا سیاسی مقاصد کے گرد گھومتے ہیں۔ گندم کو سڑنے دینا اور پھر بھی مزید خریدنا، جبکہ عوام آٹے کے لیے ترس رہے ہوں، یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکام کو عوامی مشکلات سے کوئی سروکار نہیں۔ یہ ایک ایسا ظلم ہے جو براہ راست غریب عوام پر کیا جا رہا ہے، ان کے بنیادی حق خوراک سے انہیں محروم کیا جا رہا ہے۔

یہ صورتحال غذائی تحفظ کے عالمی اہداف کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہر انسان کو خوراک تک رسائی کا حق حاصل ہے۔ سندھ میں گندم کا سڑنا اس عالمی اصول کی صریح خلاف ورزی ہے۔

احتساب کی پکار: کیا کوئی جواب دے گا؟

اس سنگین صورتحال کے بعد سب سے اہم سوال یہ ہے: “کیا کوئی ہے جو ان سے جواب لے؟” یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر پاکستانی شہری کے ذہن میں گونج رہا ہے۔ جب عوامی پیسے کا اس قدر بے دردی سے ضیاع ہو، اور عوام کو بنیادی ضرورت سے محروم رکھا جائے، تو احتساب ناگزیر ہے۔

احتساب کے لیے درج ذیل اقدامات ضروری ہیں:

  • آزادانہ تحقیقات: اس معاملے کی ایک آزادانہ اور شفاف تحقیقات ہونی چاہیے تاکہ ذمہ داران کا تعین کیا جا سکے۔ اس میں گندم کی خریداری کے فیصلوں، ذخیرہ اندوزی کے انتظامات، اور تقسیم میں تاخیر کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے۔
  • ذمہ داران کا تعین اور سزا: جو بھی حکام اس بدانتظامی اور غفلت کے ذمہ دار پائے جائیں، انہیں قانون کے مطابق سخت سزا دی جانی چاہیے، چاہے وہ کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں۔
  • پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ: گندم کی خریداری، ذخیرہ اندوزی، اور تقسیم کی پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ لیا جانا چاہیے تاکہ مستقبل میں ایسے نقصانات سے بچا جا سکے۔
  • پارلیمانی نگرانی: صوبائی اسمبلی کو اس معاملے پر فعال کردار ادا کرنا چاہیے اور حکومتی کارکردگی کی نگرانی کرنی چاہیے۔
  • میڈیا اور سول سوسائٹی کا کردار: میڈیا اور سول سوسائٹی کو اس معاملے کو اجاگر کرتے رہنا چاہیے اور عوام کو باخبر رکھنا چاہیے تاکہ احتساب کا دباؤ برقرار رہے۔
  • عدالتی مداخلت: اگر حکومتی سطح پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی تو عدلیہ کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے تاکہ عوامی مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔

اس طرح کے واقعات عوامی اداروں پر اعتماد کو ٹھیس پہنچاتے ہیں اور بدعنوانی کے کلچر کو فروغ دیتے ہیں۔ احتساب کے بغیر، ایسے واقعات دہرائے جاتے رہیں گے اور عوام کا پیسہ اسی طرح ضائع ہوتا رہے گا۔

نتیجہ

سندھ حکومت کے گوداموں میں کروڑوں بوریوں گندم کا سڑنا، ماہرین کے انتباہ کے باوجود مزید گندم کی غیر ضروری خریداری، اور اس کے نتیجے میں عوامی قرضوں میں 181 ارب روپے کا اضافہ ایک سنگین قومی بحران ہے۔ ماہانہ 2.43 ارب روپے کا سود اور گودام کے اخراجات اس بدانتظامی کی مالیاتی قیمت کو واضح کرتے ہیں، جبکہ غریب عوام آٹے کے لیے ترس رہے ہیں۔

یہ صرف کرپشن نہیں، یہ بھوک پر سیاست ہے، جہاں عوام کی بنیادی ضروریات کو نظر انداز کر کے ذاتی مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس صورتحال کا فوری اور شفاف احتساب ناگزیر ہے۔ ذمہ داران کو کٹہرے میں لانا اور مستقبل میں ایسی بدانتظامی کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان کی معیشت اور اس کے عوام کی فلاح و بہبود کا تقاضا ہے کہ اس گندم بحران کے ذمہ داران سے جواب طلبی کی جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ عوامی وسائل کا استعمال عوامی مفادات کے لیے ہی ہو۔

صفراوادی‘: انڈونیشیا کا وہ ’مقدس غار جہاں مکہ تک پہنچانے والی خفیہ سرنگ‘ موجود ہے جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے کیا دیکھا؟ سی ڈی اے ہسپتال میں لفٹ خراب ٹریفک پولیس جدید طریقہ واردات