ایبٹ آباد/نتھیا گلی: خیبر پختونخوا کے بالائی علاقوں، بالخصوص گلیات میں حالیہ برف باری کے بعد ملک بھر سے سیاحوں نے ان مقامات کا رخ کر لیا ہے۔ “سفید چادر” میں لپٹے پہاڑوں اور وادیوں کے نظارے نے موسمِ سرما کی سیاحت کو چار چاند لگا دیے ہیں، جس سے مقامی معیشت میں نئی روح پھونک دی گئی ہے۔
وادیِ گلیات کا دلکش منظر
نتھیا گلی، ڈونگا گلی، ایوبیہ اور چھانگلہ گلی جیسے مشہور مقامات پر کئی انچ برف پڑ چکی ہے۔ درختوں کی شاخوں اور مکانات کی چھتوں پر جمی برف نے ایک طلسماتی سماں پیدا کر دیا ہے۔ سیاحوں کی بڑی تعداد، جن میں خاندان اور نوجوان شامل ہیں، اس قدرتی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کے لیے وہاں پہنچ چکی ہے۔ بچے برف سے انسانی مجسمے بنانے اور ایک دوسرے پر برف کے گولے پھینکنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔
سیاحت اور مقامی معیشت
صوبائی محکمہ سیاحت کے مطابق، اس سال سیاحوں کی آمد پچھلے برسوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
- ہوٹلوں کی بکنگ: برف باری کے باعث تمام چھوٹے بڑے ہوٹل اور آرام گاہیں مکمل طور پر بھر چکی ہیں۔
- مقامی کاروبار: گرم ملبوسات، قہوہ، خشک میوہ جات اور گرم کھانے فروخت کرنے والے دکانداروں کے کاروبار میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
- سرکاری انتظامات: ضلعی انتظامیہ نے سیاحوں کی سہولت کے لیے شاہراہوں سے برف ہٹانے کا کام تیز کر دیا ہے تاکہ آمد و رفت میں رکاوٹ نہ آئے۔
انتظامیہ کی ہدایات اور حفاظتی اقدامات
محکمہ سیاحت اور مقامی پولیس نے سیاحوں کے لیے خصوصی ہدایات جاری کی ہیں:
- گاڑیوں کی تیاری: سیاحوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنی گاڑیوں کے پہیوں پر زنجیریں باندھیں تاکہ پھسلن سے بچا جا سکے۔
- ایندھن اور خوراک: بالائی علاقوں میں جانے سے پہلے گاڑی میں ایندھن کا بھرپور ذخیرہ اور ضروری اشیائے خوردونوش ساتھ رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔
- ٹریفک پلان: ایبٹ آباد سے مری جانے والی شاہراہ پر ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کے لیے اضافی نفری تعینات کر دی گئی ہے۔
سیاحوں کا جوش و خروش
کراچی اور لاہور جیسے دور دراز شہروں سے آئے ہوئے سیاحوں کا کہنا ہے کہ گلیات کی برف باری کسی بھی غیر ملکی سیاحتی مقام سے کم نہیں ہے۔ ایک سیاح کے مطابق: “یہاں کی ٹھنڈی ہوا اور برف پوش پہاڑ ذہنی سکون کا باعث ہیں، اور ہم ہر سال اس موسم کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں۔”
حکام کا کہنا ہے کہ اگر برف باری کا یہ سلسلہ جاری رہا تو آنے والے ہفتوں میں سیاحوں کی تعداد میں مزید اضافے کا امکان ہے، جو صوبے میں سیاحت کے شعبے کے لیے ایک نیک شگون ہے۔
