google-site-verification=aZNfMycu8K7oF6lNUgjpjoa8ZAyM0qfHriwatL8flQ4
image_search_1748275677139

پاکستان کی سپریم کورٹ اس وقت مخصوص نشستوں کی تقسیم سے متعلق ایک اہم نظر ثانی کی درخواست پر سماعت کر رہی ہے، جو ملک کے سیاسی اور انتخابی منظرنامے کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل معاملہ ہے۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی بینچ کی براہ راست سماعت اس کیس کی سنگینی اور عوامی دلچسپی کو اجاگر کرتی ہے۔ سماعت نے عام انتخابات کے بعد آزاد امیدواروں کے کسی مخصوص سیاسی جماعت میں شامل ہونے کے تناظر میں سیاسی جماعتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے اہلیت کے حوالے سے پیچیدہ قانونی اور آئینی سوالات کو سامنے لایا ہے۔ مختلف ججوں، بشمول جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس مسرت ہلالی کے ریمارکس نے عدالت کی کارروائیوں کے بارے میں اہم بصیرت فراہم کی ہے، جو انتخابی قوانین اور آئینی دفعات کی تشریح میں شامل پیچیدگیوں کو اجاگر کرتی ہے۔ یہ تفصیلی پوسٹ اس اہم کیس کے پس منظر، وکلاء کی طرف سے پیش کیے گئے اہم دلائل، معزز ججوں کے گہرے مشاہدات، اور پاکستان کے جمہوری عمل اور پارلیمانی نمائندگی پر سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کے ممکنہ اثرات پر روشنی ڈالے گی۔

کیس کا پس منظر: سنی اتحاد کونسل اور مخصوص نشستیں

نظر ثانی کی درخواست کا بنیادی محور سنی اتحاد کونسل (ایس آئی سی) کو مخصوص نشستوں کی تقسیم کے گرد گھومتا ہے۔ عام انتخابات کے بعد، خاص طور پر ایک مخصوص سیاسی جماعت کی حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی ایک بڑی تعداد ایس آئی سی میں شامل ہو گئی۔ اس کے بعد، ایس آئی سی نے مخصوص نشستوں کا دعویٰ کیا، جو سیاسی جماعتوں کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ان کی متناسب نمائندگی کی بنیاد پر مختص کی جاتی ہیں۔ یہ مخصوص نشستیں قانون ساز اداروں میں خواتین اور اقلیتوں کی نمائندگی کو یقینی بنانے کے لیے اہم ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے ابتدائی طور پر ایس آئی سی کے ان مخصوص نشستوں کے دعوے کو مسترد کر دیا، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ پارٹی نے عام انتخابات میں اپنے امیدواروں کے ساتھ ایک متحد ادارے کے طور پر حصہ نہیں لیا تھا، اور اس لیے، اس میں بعد میں شامل ہونے والے آزاد امیدواروں نے اسے مخصوص نشستوں کا حقدار نہیں بنایا۔ ای سی پی کے اس فیصلے کو مختلف فورمز پر چیلنج کیا گیا، بالآخر سپریم کورٹ تک پہنچا۔ سپریم کورٹ کے پہلے فیصلے نے ای سی پی کے موقف کو برقرار رکھا تھا، جس کی وجہ سے موجودہ نظر ثانی کی درخواست دائر کی گئی۔ نظر ثانی کی درخواست اس فیصلے پر نظر ثانی اور ممکنہ طور پر اسے کالعدم قرار دینے کی کوشش کرتی ہے، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ آزاد امیدواروں نے، ایس آئی سی میں شامل ہو کر، اسے مؤثر طریقے سے ایک پارلیمانی پارٹی میں تبدیل کر دیا تھا جو مخصوص نشستوں کے لیے اہل تھی۔ اس کیس کا نتیجہ ایک اہم نظیر قائم کرے گا کہ کس طرح سیاسی اتحاد اور انتخابات کے بعد کی وابستگیاں پارلیمانی نمائندگی کو متاثر کرتی ہیں، خاص طور پر مخصوص نشستوں کے حوالے سے۔

سماعت کے اہم دلائل اور مشاہدات

جاری سماعت بینچ کے تیز سوالات اور وکیل کے تفصیلی دلائل سے نمایاں رہی ہے، جو کیس کے مختلف قانونی پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہے۔

بینچ کے ایک نمایاں رکن، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ایک مضبوط ریمارکس دیا، جس میں کہا گیا کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں ہے۔ ایک سینئر جج کا یہ مشاہدہ اس معاملے پر ایک مضبوط موقف کی نشاندہی کرتا ہے، یہ تجویز کرتا ہے کہ ایس آئی سی کو نشستیں دینے سے انکار کا ابتدائی فیصلہ برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ ان کی دلیل، جیسا کہ مزید وضاحت کی گئی ہے، اس اصول پر منحصر ہے کہ جب کہ ایس آئی سی ایک پارلیمانی پارٹی بنا سکتی تھی، یہ ان پارٹیوں کی طرح مخصوص نشستوں کے لیے فطری طور پر اہل نہیں ہے جنہوں نے اپنے نشانات اور امیدواروں کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیا تھا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ایک اہم سوال اٹھایا، جس میں پوچھا گیا کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کا دعویٰ کیسے کر سکتی ہے جب اس نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا۔ انہوں نے مزید استفسار کیا کہ آزاد امیدوار ایسی پارٹی میں کیسے شامل ہو سکتے ہیں جو پہلے تو انتخابی مقابلے کا حصہ نہیں تھی۔ ان کے ریمارکس نے ایک بنیادی مسئلہ کو اجاگر کیا: وہ طریقہ کار جس کے ذریعے آزاد اراکین، جو انتخابات جیتتے ہیں، پارلیمنٹ میں موجود ایک پارٹی میں شامل ہو سکتے ہیں۔ تاہم، جب ایک ایسی پارٹی جو براہ راست انتخابات میں حصہ نہیں لیتی، یا کوئی عام نشست حاصل نہیں کرتی، آزاد جیتنے والوں کی وابستگی کی بنیاد پر مخصوص نشستوں کا دعویٰ کرتی ہے تو یہ سوال مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ جسٹس ہلالی نے زور دیا کہ آزاد اراکین کو جیتنے والی پارٹی میں شامل ہونا تھا، اس کا مطلب یہ ہے کہ ایس آئی سی، جس نے براہ راست کوئی عام نشست حاصل نہیں کی تھی، اس معیار پر پورا نہیں اترتی۔

درخواست گزاروں کی نمائندگی کرنے والے وکیل مخدوم علی خان نے دلیل دی کہ ایس آئی سی کے مطابق آزاد امیدوار ان کے ساتھ شامل ہو گئے تھے۔ اس کے بعد جسٹس مسرت ہلالی نے براہ راست پوچھا کہ کیا سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ لیا تھا؟ وکیل نے تصدیق کی کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا، اور یہاں تک کہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے خود آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا۔ یہ اعتراف کیس میں ایک اہم نقطہ ہے، کیونکہ یہ براہ راست مخصوص نشستوں کے لیے بنیادی اہلیت کے معیار کو حل کرتا ہے، جو عام طور پر ایک پارٹی کی عام انتخابات میں کارکردگی سے منسلک ہوتا ہے۔

مخدوم علی خان نے مزید دلیل دی کہ جن اراکین کو مخصوص نشستیں مختص کی گئی تھیں (اور بعد میں ڈی نوٹیفائی کر دیا گیا) انہیں ڈی نوٹیفیکیشن سے قبل کوئی پیشگی نوٹس نہیں دیا گیا۔ یہ ایک طریقہ کار کی انصاف پسندی کی دلیل پیش کرتا ہے، یہ تجویز کرتے ہوئے کہ مناسب عمل کی پیروی نہیں کی گئی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے پہلے الیکشن کمیشن کے نوٹیفیکیشن کو کالعدم قرار دیا تھا۔ وکیل نے پھر وضاحت کی کہ سنی اتحاد کونسل نے آرٹیکل 185/3 کے تحت سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، اور الیکشن کمیشن کا نوٹیفیکیشن عدالت کے سامنے تھا۔

مخدوم علی خان نے موقف اپنایا کہ اگر کوئی نوٹیفیکیشن سے متاثر ہوتا تھا تو عدالت کو نوٹس کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ عدالتی فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 225 کا ذکر تک نہیں ہے، جو یہ کہتا ہے کہ کسی بھی الیکشن پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا سوائے ایسے ٹریبونل کے سامنے پیش کی گئی انتخابی درخواست کے جو پارلیمنٹ کے ایکٹ کے ذریعے طے کیا گیا ہو۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اس کیس میں آرٹیکل 225 کا اطلاق کیسے ہوتا ہے؟

جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے وضاحت کی کہ یہ معاملہ مخصوص نشستوں کا ہے، اور مخصوص سیٹیں متناسب نمائندگی پر الاٹ ہوتی ہیں۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ مخصوص نشستوں کی فہرستیں انتخابات سے قبل جمع ہوتی ہیں اور کاغذات نامزدگی پر غلطی کی صورت میں معاملہ ٹریبونل کے سامنے جاتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے پھر ایک فرضی صورتحال پیش کی: اگر آپ کی دلیل مان لی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پشاور ہائی کورٹ کا اس معاملے میں کوئی دائرہ اختیار نہیں تھا۔ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ اس وقت تک مخصوص اراکین کے نوٹیفیکیشن جاری نہیں ہوئے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عدالتی فیصلے موجود ہیں کہ آئین و قانون سے برعکس فیصلہ ناقص ہوگا، اور عدالت کی ذمہ داری ہے کہ اس غلطی کو درست کیا جائے۔ جسٹس مندوخیل نے پھر استفسار کیا کہ اگر اکثریتی ججز یہ سمجھیں کہ فیصلہ درست ہے اور نظرثانی بھی درست ہے تو ایسی صورت میں کیا ہوگا؟ جس پر مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ ایسی صورت میں نظرثانی کی درخواست مسترد ہو جائے گی۔

قانونی باریکیاں اور آئینی آرٹیکلز

سماعت نے کئی اہم قانونی باریکیوں اور آئینی آرٹیکلز کی تشریحات پر گہرائی سے غور کیا ہے، خاص طور پر آرٹیکل 225 اور مخصوص نشستوں کے لیے متناسب نمائندگی کو کنٹرول کرنے والے اصول۔

آرٹیکل 225: یہ آرٹیکل پاکستان کے انتخابی قانون کا ایک سنگ بنیاد ہے، جو عام طور پر کسی بھی الیکشن کو چیلنج کرنے سے روکتا ہے سوائے ایک انتخابی درخواست کے ذریعے ایک نامزد ٹریبونل کے سامنے۔ مخدوم علی خان کی دلیل کہ سپریم کورٹ کے پچھلے فیصلے میں آرٹیکل 225 کا ذکر نہیں تھا، ایک ممکنہ طریقہ کار کی غلطی یا عدالت کے دائرہ اختیار کو چیلنج کرنے کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ ایک انتخابی معاملے میں براہ راست مداخلت کرے بغیر اس کے کہ وہ پہلے مقررہ ٹریبونل کے عمل سے گزرے۔ تاہم، جسٹس محمد علی مظہر کی وضاحت کے مطابق، جوابی دلیل یہ ہے کہ یہ کیس خاص طور پر متناسب نمائندگی کی بنیاد پر مخصوص نشستوں کی تقسیم سے متعلق ہے، جو عام انتخابات کے نتائج کو براہ راست چیلنج کرنے سے مختلف تشریحی نقطہ نظر کے تحت آ سکتا ہے۔ مخصوص نشستوں کی تقسیم ایک انتخابات کے بعد کا عمل ہے، اور ایسی تقسیم کو چیلنج کرنے کا طریقہ کار عام انتخابات کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے سے مختلف ہو سکتا ہے۔

متناسب نمائندگی: خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستیں سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حاصل کردہ عام نشستوں کے ان کے حصے کی بنیاد پر مختص کی جاتی ہیں۔ متناسب نمائندگی کا یہ اصول اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ معاشرے کے ان طبقات کو قانون ساز ادارے میں آواز حاصل ہو۔ اس کیس میں بنیادی تنازعہ یہ ہے کہ کیا ایس آئی سی، آزاد امیدواروں کے اس میں شامل ہونے کی وجہ سے، واقعی اس متناسب نمائندگی کے لیے اہل ہے، خاص طور پر جب پارٹی نے خود عام انتخابات میں براہ راست حصہ نہیں لیا تھا۔

انتخابات کے بعد کی وابستگی: انتخابات کے بعد آزاد امیدواروں کے کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کے قانونی اثرات اس کیس کے مرکزی ہیں۔ جب کہ قانون آزاد اراکین کو ایک مخصوص ٹائم فریم کے اندر ایک پارلیمانی پارٹی میں شامل ہونے کی اجازت دیتا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی ایسی پارٹی میں شامل ہونا جس نے پہلے کوئی عام نشست حاصل نہیں کی تھی، اسے مخصوص نشستوں کا حقدار بناتا ہے۔ یہ امتیاز متناسب نمائندگی کے نظام کی سالمیت کو برقرار رکھنے کے لیے اہم ہے۔

طریقہ کار کی انصاف پسندی اور نوٹس: اراکین کو پیشگی نوٹس کے بغیر ڈی نوٹیفائی کرنے کے بارے میں دلیل مناسب عمل اور قدرتی انصاف کے بارے میں سوالات اٹھاتی ہے۔ اگر افراد کو ان کی نشستوں سے محروم کیا گیا تو انہیں اپنا کیس پیش کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے تھا۔ عدالت کے پچھلے ای سی پی کے نوٹیفیکیشن کو کالعدم قرار دینے سے یہ پہلو مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے، جو شامل قانونی چیلنجوں کی تہوں کو اجاگر کرتا ہے۔

سماعت کے مضمرات

اس نظر ثانی کی درخواست کا نتیجہ پاکستان کے سیاسی منظرنامے اور انتخابی مستقبل کے لیے اہم مضمرات رکھتا ہے:

مخصوص نشستوں کے لیے نظیر: سپریم کورٹ کا فیصلہ مستقبل کے انتخابات میں مخصوص نشستوں کی تقسیم کے لیے ایک اہم نظیر قائم کرے گا۔ یہ ان شرائط کو واضح کرے گا جن کے تحت ایک سیاسی جماعت، خاص طور پر ایک جو آزاد امیدواروں کے ذریعے شامل ہوئی ہے، ان نشستوں کا دعویٰ کر سکتی ہے۔

سیاسی اتحادوں پر اثر: یہ فیصلہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد بنانے کے طریقے اور انتخابات کے بعد آزاد امیدواروں کے اپنے آپ کو کیسے ہم آہنگ کرنے کے طریقے کو متاثر کر سکتا ہے۔ یہ پارٹیوں کو مخصوص نشستوں پر اپنے دعوے کو محفوظ بنانے کے لیے زیادہ براہ راست انتخابات میں حصہ لینے کی ترغیب دے سکتا ہے۔

انتخابی قوانین کو مضبوط بنانا: یہ کیس انتخابات کے بعد کی وابستگیوں اور مخصوص نشستوں کی تقسیم کے حوالے سے واضح اور مضبوط انتخابی قوانین کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ سپریم کورٹ کی تشریح بہت ضروری وضاحت فراہم کرے گی۔

پارلیمانی تشکیل: یہ فیصلہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی تشکیل کو براہ راست متاثر کرے گا، ممکنہ طور پر طاقت اور نمائندگی کے توازن کو تبدیل کر سکتا ہے۔

عدالتی فعالیت بمقابلہ تحمل: یہ کیس عدالتی فعالیت بمقابلہ عدالتی تحمل کے وسیع تر مباحثے کو بھی چھوتا ہے، خاص طور پر جب عدلیہ انتخابی معاملات میں مداخلت کرتی ہے۔ عدالت کا حتمی فیصلہ انتخابات سے متعلق آئینی دفعات کی تشریح اور نفاذ کے لیے اس کے نقطہ نظر کی عکاسی کرے گا۔

نتیجہ

سپریم کورٹ کی مخصوص نشستوں سے متعلق نظر ثانی کی درخواست پر براہ راست سماعت پاکستان کی قانونی اور سیاسی تاریخ میں ایک اہم واقعہ ہے۔ بینچ کے گہرے غور و خوض، تیز سوالات، اور وکیل کے تفصیلی دلائل اس کیس کی پیچیدگی اور دور رس اثرات کو اجاگر کرتے ہیں۔ بنیادی مسئلہ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے لیے اہلیت کے گرد گھومتا ہے، عام انتخابات کے بعد آزاد امیدواروں کے اس میں شامل ہونے کی اس کی منفرد پوزیشن کو دیکھتے ہوئے۔ آئینی دفعات، خاص طور پر آرٹیکل 225، اور متناسب نمائندگی کے اصولوں کی عدالت کی تشریح مستقبل کے انتخابی عمل اور پارلیمانی نمائندگی پر گہرا اثر ڈالے گی۔ حتمی فیصلے سے قطع نظر، اس سماعت نے اہم قانونی اور آئینی سوالات کو سامنے لایا ہے جو پاکستان کے جمہوری ڈھانچے کو مضبوط بنانے اور معاشرے کے تمام طبقات کے لیے منصفانہ اور مساوی نمائندگی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہیں۔ قوم سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کر رہی ہے، جو بلاشبہ پاکستان کے سیاسی مستقبل کے خدوخال کو تشکیل دے گا۔

صفراوادی‘: انڈونیشیا کا وہ ’مقدس غار جہاں مکہ تک پہنچانے والی خفیہ سرنگ‘ موجود ہے جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے کیا دیکھا؟ سی ڈی اے ہسپتال میں لفٹ خراب ٹریفک پولیس جدید طریقہ واردات