
اسلام آباد (بیورو رپورٹ)
پاکستان کے شمالی علاقہ جات، خاص طور پر خیبر پختونخوا، اپنی بے مثال قدرتی خوبصورتی، بلند و بالا پہاڑوں اور ثقافتی ورثے کی وجہ سے دنیا بھر میں شہرت رکھتے ہیں۔ انہی میں سے ایک عظیم الشان چوٹی ترچ میر ہے، جو ہندوکش سلسلے کی سب سے اونچی چوٹی ہے اور پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں واقع ہے۔ اس کی بلندی تقریباً 7,708 میٹر (25,289 فٹ) ہے۔ یہ چوٹی نہ صرف جغرافیائی اہمیت کی حامل ہے بلکہ کوہ پیمائی کی دنیا میں بھی اس کا ایک خاص مقام ہے۔ ترچ میر کو پہلی بار 1950 میں ایک نارویجن مہم نے سر کیا تھا، اور اس تاریخی کامیابی کے 75 سال مکمل ہونے پر، خیبر پختونخوا کلچر اینڈ ٹورزم اتھارٹی (KPCTA) کے زیر اہتمام اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں ایک شاندار تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اس تقریب کا مقصد ترچ میر چوٹی کی 75ویں پلاٹینم جوبلی کو سرکاری سطح پر منانا تھا، جس کے ذریعے نہ صرف کوہ پیمائی کی اس تاریخ ساز کامیابی کو خراج تحسین پیش کیا گیا بلکہ پاکستان میں سیاحت، خصوصاً مہم جوئی کی سیاحت کو فروغ دینے کے عزم کا بھی اظہار کیا گیا۔
یہ ایک ایسا موقع تھا جہاں ملک و بیرون ملک سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما، صحافی، سفارتی نمائندے اور سیاحت سے وابستہ شخصیات بڑی تعداد میں جمع ہوئے۔ تقریب کی رونق اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ پاکستان کے سیاحتی شعبے کے لیے ایک نیا باب کھولنے کا ذریعہ بن سکتی تھی۔ تاہم، اس اہم اور تاریخی موقع پر خیبر پختونخوا کے مشیر سیاحت و ثقافت کی غیر موجودگی نے تقریب کی چمک کو ماند کر دیا اور کئی سوالات کو جنم دیا۔ یہ ایک ایسی غیر حاضری تھی جس نے نہ صرف شرکاء کو حیران کیا بلکہ اس نے حکومتی ترجیحات اور اداروں کے درمیان ہم آہنگی پر بھی سوالات کھڑے کر دیے۔
مشیر سیاحت و ثقافت کی غیر حاضری: ایک حیران کن پہلو
تقریب میں موجود ہر شخص اس بات پر حیران تھا کہ خیبر پختونخوا کے مشیر سیاحت و ثقافت، جو کہ اس شعبے کے سب سے اہم سیاسی نمائندے ہیں، اس قدر اہم تقریب سے غیر حاضر کیوں رہے؟ ان کی عدم شرکت نے نہ صرف مقامی شرکاء کو حیرت میں ڈال دیا بلکہ غیر ملکی مندوبین اور اسلام آباد کے صحافی بھی اس پر حیران دکھائی دیے۔ ایک غیر ملکی مندوب نے تو یہاں تک کہا کہ “ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے مشیر کا عہدہ خالی ہے۔” یہ تبصرہ مشیر کی غیر موجودگی کے منفی تاثر کو واضح طور پر ظاہر کرتا ہے۔
کسی بھی سرکاری تقریب میں، خاص طور پر جب وہ کسی اہم شعبے سے متعلق ہو، اس شعبے کے سربراہ یا اہم نمائندے کی موجودگی نہ صرف اس تقریب کی اہمیت کو بڑھاتی ہے بلکہ حکومتی عزم اور ترجیحات کا بھی اظہار کرتی ہے۔ مشیر سیاحت و ثقافت کی غیر موجودگی نے ایک ایسا خلا پیدا کیا جو تقریب کی مجموعی فضا پر اثر انداز ہوا۔ یہ سوالات اٹھائے گئے کہ کیا حکومت واقعی سیاحت کے فروغ کے لیے سنجیدہ ہے؟ کیا اداروں کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان ہے؟ یا پھر اس غیر حاضری کے پیچھے کوئی اور وجہ کارفرما ہے؟ یہ صورتحال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ عوامی سطح پر حکومتی نمائندوں کی موجودگی کس قدر اہمیت رکھتی ہے، خاص طور پر جب وہ بین الاقوامی سطح پر ملک کا مثبت تاثر پیش کرنے کا موقع ہو۔
ڈی جی کلچر و سیاحت کی قیادت میں پروگرام نے پذیرائی حاصل کی
مشیر کی غیر موجودگی کے باوجود، خیبر پختونخوا کلچر اینڈ ٹورزم اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل حبیب اللہ عارف نے اپنی قیادت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے شرکاء کے دل جیت لیے۔ انہوں نے تقریب کی تمام ذمہ داریاں بخوبی نبھائیں اور سیاحت کے فروغ کے لیے کیے گئے اعلانات کو سراہا گیا۔ ان کی موجودگی اور فعال کردار نے اس تاثر کو کسی حد تک زائل کیا جو مشیر کی غیر حاضری سے پیدا ہوا تھا۔ حبیب اللہ عارف نے خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے ترچ میر سر کرنے کے لیے کوہ پیماؤں کو مکمل فنڈ فراہم کرنے کا اعلان کیا، جو کہ کوہ پیمائی کے شعبے میں ایک اہم قدم ہے۔ اس اعلان نے کوہ پیماؤں میں جوش و خروش پیدا کیا اور انہیں مزید مہم جوئی کے لیے حوصلہ دیا۔ ڈی جی حبیب اللہ عارف کی پیشہ ورانہ مہارت اور سیاحت کے شعبے کے لیے ان کا وژن واضح طور پر سامنے آیا، جس نے شرکاء میں اعتماد بحال کیا۔
اہم اعلانات اور ان کی اہمیت
ترچ میر چوٹی کی 75ویں سالگرہ کی مناسبت سے تقریب میں کئی اہم اعلانات کیے گئے جو پاکستان میں کوہ پیمائی اور سیاحت کے مستقبل کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
- کوہ پیماؤں کی رائلٹی فیس معافی: اگلے دو سالوں کے لیے ترچ میر سر کرنے والے کوہ پیماؤں کی رائلٹی فیس معاف کر دی گئی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا قدم ہے جو کوہ پیماؤں کو ترچ میر کی طرف راغب کرے گا۔ رائلٹی فیس عام طور پر کوہ پیماؤں پر عائد کی جانے والی ایک بڑی رقم ہوتی ہے جو انہیں پہاڑ سر کرنے کی اجازت حاصل کرنے کے لیے ادا کرنی پڑتی ہے۔ اس فیس کی معافی سے نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی کوہ پیماؤں کو بھی مالی ریلیف ملے گا، جس سے پاکستان میں کوہ پیمائی کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا۔ یہ اقدام پاکستان کو کوہ پیمائی کے لیے ایک زیادہ سستی اور پرکشش منزل کے طور پر پیش کرے گا، جو عالمی کوہ پیمائی کمیونٹی میں اس کی ساکھ کو بہتر بنائے گا۔
- مقامی و بین الاقوامی کوہ پیماؤں کو مزید سہولیات: حکومت کی جانب سے مقامی و بین الاقوامی کوہ پیماؤں کو مزید سہولیات فراہم کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا۔ ان سہولیات میں بہتر لاجسٹکس، سیکیورٹی، ریسکیو آپریشنز، اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی شامل ہو سکتی ہے۔ کوہ پیمائی ایک خطرناک کھیل ہے جس میں لاجسٹیکل سپورٹ اور ہنگامی خدمات کی دستیابی انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ حکومت کا یہ عزم کوہ پیماؤں کے لیے ایک محفوظ اور زیادہ منظم ماحول فراہم کرے گا، جس سے ان کی مہم جوئی کے دوران اعتماد میں اضافہ ہوگا۔ یہ طویل مدتی میں پاکستان میں مہم جوئی کی سیاحت کے فروغ کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرے گا۔
شرکاء اور معزز مہمان: تقریب کی رونق
تقریب میں نمایاں شخصیات کی شرکت نے اس کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا:
- ایم این اے فیصل امین گنڈاپور: ایک پارلیمانی نمائندے کی موجودگی نے حکومتی سطح پر اس ایونٹ کی اہمیت کو ظاہر کیا۔
- ڈی جی کلچر اینڈ ٹورزم اتھارٹی حبیب اللہ عارف: ان کی فعال قیادت اور اعلانات نے تقریب کو ایک نئی جہت دی۔
- ڈپٹی ہیڈ آف مشن ناروے تھامس: ترچ میر کو پہلی بار نارویجن مہم نے سر کیا تھا، اس لیے ناروے کے سفارتی نمائندے کی موجودگی نے تقریب کو بین الاقوامی سطح پر اہمیت دی۔ یہ ناروے اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کا بھی ایک ذریعہ بنا۔
- ایم ڈی پی ٹی ڈی سی افتاب رانا: پاکستان ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن (PTDC) کے منیجنگ ڈائریکٹر کی موجودگی نے قومی سطح پر سیاحت کے فروغ کے لیے اداروں کے درمیان ہم آہنگی کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
- ماؤنٹین ویلڈرنَس انٹرنیشنل کے کرلو البرٹو پینالی: بین الاقوامی کوہ پیما تنظیم کے نمائندے کی شرکت نے عالمی کوہ پیمائی کمیونٹی میں پاکستان کی اہمیت کو ظاہر کیا۔
- مختلف قومی و بین الاقوامی کوہ پیما: ان کوہ پیماؤں کی موجودگی نے تقریب کو ایک حقیقی کوہ پیمائی کا رنگ دیا اور ان کے تجربات نے شرکاء کو متاثر کیا۔
ان تمام شخصیات کی موجودگی نے اس تقریب کو ایک جامع اور بین الاقوامی نوعیت کا ایونٹ بنا دیا، جس سے پاکستان کی سیاحتی صلاحیتوں کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا موقع ملا۔
مشیر کی غیر موجودگی—سیاسی ناراضگی؟
مشیر سیاحت و ثقافت کی غیر حاضری نے تقریب میں ایک گہرا سوالیہ نشان چھوڑ دیا۔ باوثوق ذرائع کے مطابق، ان کی عدم شرکت کے پیچھے مبینہ ناراضگی اور حالیہ تنظیمی تبدیلیوں کا عمل دخل ہو سکتا ہے، خاص طور پر “ہائی جیکر گروپ” کے خاتمے کے بعد۔ یہ اصطلاح عام طور پر ان افراد یا گروہوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جو کسی ادارے یا منصوبے کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر یہ سچ ہے کہ ایسے کسی گروپ کا خاتمہ ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں مشیر ناراض ہیں، تو یہ صورتحال حکومتی اداروں کے اندرونی مسائل اور سیاسی تنازعات کی عکاسی کرتی ہے۔
ایک شریک نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: “مشیر صاحب کی غیر موجودگی نے تاثر دیا کہ شاید وہ خود اس نئے سیٹ اپ سے خوش نہیں۔” یہ تبصرہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اندرونی سیاسی مسائل کس طرح عوامی سطح پر منفی تاثر پیدا کر سکتے ہیں اور کسی بھی منصوبے یا شعبے کی ترقی کو متاثر کر سکتے ہیں۔ سیاحت جیسے حساس شعبے میں، جہاں بین الاقوامی سرمایہ کاری اور اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے، سیاسی استحکام اور اداروں کے درمیان ہم آہنگی انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ مشیر کی غیر موجودگی نے اس شعبے میں سیاسی قیادت کے عزم پر سوالات اٹھائے، جو طویل مدتی میں سیاحت کے فروغ کی کوششوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ صورتحال اس بات کی بھی یاد دہانی ہے کہ حکومتی عہدیداروں کو اپنے ذاتی یا سیاسی اختلافات کو عوامی مفاد پر ترجیح نہیں دینی چاہیے۔
اعتماد کی بحالی اور مستقبل کی امیدیں
مشیر کی غیر موجودگی سے پیدا ہونے والے منفی تاثر کے باوجود، تقریب میں شریک کوہ پیماؤں اور ماہرین نے ڈی جی حبیب اللہ عارف پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حبیب اللہ عارف کی قیادت میں اتھارٹی میں شفافیت اور پیشہ ورانہ جذبہ واپس آیا ہے۔ یہ ایک بہت مثبت پیش رفت ہے، کیونکہ کسی بھی سرکاری ادارے کی کامیابی کے لیے شفافیت اور پیشہ ورانہ مہارت انتہائی ضروری ہے۔ جب ادارے کے سربراہ پر اعتماد ہو تو وہ بہتر فیصلے کر سکتے ہیں اور اپنے اہداف کو مؤثر طریقے سے حاصل کر سکتے ہیں۔
امید کی جا رہی ہے کہ حبیب اللہ عارف کی ان کوششوں سے خیبر پختونخوا دوبارہ سیاحت کے میدان میں نمایاں مقام حاصل کرے گا۔ خیبر پختونخوا میں سیاحت کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے، خاص طور پر مہم جوئی کی سیاحت، ثقافتی سیاحت، اور مذہبی سیاحت کے شعبوں میں۔ ترچ میر جیسے بلند و بالا پہاڑ، سوات، کاغان، ناران جیسے خوبصورت وادیاں، اور پشاور جیسے تاریخی شہر سیاحوں کے لیے بے شمار پرکشش مقامات پیش کرتے ہیں۔ اگر ان علاقوں میں سیاحتی بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنایا جائے، سیکیورٹی کو یقینی بنایا جائے، اور مؤثر مارکیٹنگ کی جائے تو خیبر پختونخوا پاکستان کی سیاحت کا مرکز بن سکتا ہے۔ ڈی جی حبیب اللہ عارف کی قیادت میں، یہ امید کی جا سکتی ہے کہ اتھارٹی ان تمام شعبوں میں کام کرے گی اور صوبے کو ایک عالمی سیاحتی منزل کے طور پر ابھارے گی۔
خیبر پختونخوا میں سیاحت کا وسیع تر اثر
خیبر پختونخوا میں سیاحت کا فروغ نہ صرف صوبے کی معیشت بلکہ پورے پاکستان کی معیشت کے لیے بھی انتہائی فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ سیاحت سے براہ راست اور بالواسطہ دونوں طرح کے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ ہوٹل، ریسٹورنٹس، ٹرانسپورٹ، گائیڈ سروسز، اور مقامی دستکاری جیسے شعبوں میں ملازمتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ، سیاحت مقامی ثقافت اور ورثے کو محفوظ رکھنے میں بھی مدد دیتی ہے، کیونکہ سیاحوں کی آمد سے مقامی فنکاروں اور دستکاروں کو اپنی مصنوعات فروخت کرنے کا موقع ملتا ہے۔
ترچ میر جیسے پہاڑوں کی کوہ پیمائی کو فروغ دینے سے ایڈونچر ٹورزم میں اضافہ ہوگا، جو کہ ایک اعلیٰ قدر والی سیاحت کی قسم ہے۔ یہ سیاح عام طور پر زیادہ خرچ کرتے ہیں اور مقامی معیشت میں زیادہ حصہ ڈالتے ہیں۔ رائلٹی فیس کی معافی اور اضافی سہولیات کی فراہمی سے بین الاقوامی کوہ پیماؤں کی آمد میں اضافہ ہوگا، جس سے غیر ملکی زر مبادلہ حاصل ہوگا۔ یہ پاکستان کی معیشت کو مضبوط کرنے میں مدد دے گا۔
چیلنجز اور آگے کا راستہ
اگرچہ خیبر پختونخوا میں سیاحت کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے، لیکن اسے کئی چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ ان میں سیکیورٹی کا تاثر، ناقص بنیادی ڈھانچہ، مناسب مارکیٹنگ کا فقدان، اور اداروں کے درمیان ہم آہنگی کی کمی شامل ہے۔ ترچ میر کی پلاٹینم جوبلی جیسی تقاریب ایک مثبت قدم ہیں، لیکن انہیں مستقل اور جامع کوششوں کی ضرورت ہے۔
آگے کا راستہ یہ ہے کہ:
- سیاسی عزم اور ہم آہنگی: سیاحت کے فروغ کے لیے سیاسی قیادت کا مستقل عزم اور اداروں کے درمیان مکمل ہم آہنگی ضروری ہے۔ ذاتی اختلافات کو عوامی مفاد پر ترجیح نہیں دینی چاہیے۔
- بنیادی ڈھانچے کی ترقی: سیاحتی مقامات تک رسائی کو بہتر بنانے کے لیے سڑکوں، ہوٹلوں، اور دیگر سہولیات کو بہتر بنایا جائے۔
- سیکیورٹی اور سیفٹی: سیاحوں کے لیے ایک محفوظ ماحول کو یقینی بنایا جائے، خاص طور پر مہم جوئی کی سیاحت کے لیے ریسکیو اور ہنگامی خدمات کو مضبوط کیا جائے۔
- مارکیٹنگ اور برانڈنگ: پاکستان کی سیاحتی صلاحیتوں کو عالمی سطح پر مؤثر طریقے سے مارکیٹ کیا جائے۔
- مقامی کمیونٹیز کی شمولیت: سیاحت کے منصوبوں میں مقامی کمیونٹیز کو شامل کیا جائے تاکہ وہ سیاحت کے فوائد سے مستفید ہو سکیں اور سیاحت کو پائیدار بنایا جا سکے۔
حتمی نتیجہ
ترچ میر چوٹی کی 75ویں پلاٹینم جوبلی کی تقریب ایک اہم موقع تھا جس نے پاکستان میں سیاحت، خاص طور پر کوہ پیمائی کی سیاحت، کے فروغ کے لیے نئے امکانات روشن کیے۔ مشیر سیاحت و ثقافت کی غیر موجودگی نے اگرچہ کچھ سوالات کو جنم دیا اور تقریب کی چمک کو متاثر کیا، لیکن ڈی جی حبیب اللہ عارف کی فعال قیادت اور اہم اعلانات نے شرکاء میں اعتماد بحال کیا۔ رائلٹی فیس کی معافی اور کوہ پیماؤں کو مزید سہولیات فراہم کرنے کا عزم پاکستان کو عالمی کوہ پیمائی کے نقشے پر ایک اہم مقام دلانے میں مدد دے گا۔
یہ تقریب اس بات کی یاد دہانی ہے کہ پاکستان میں سیاحت کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے، لیکن اس کے لیے مستقل سیاسی عزم، اداروں کے درمیان ہم آہنگی، اور پیشہ ورانہ مہارت کی ضرورت ہے۔ اگر ان اصولوں پر عمل کیا جائے تو خیبر پختونخوا اور پورا پاکستان سیاحت کے میدان میں ایک نمایاں مقام حاصل کر سکتا ہے، جس سے نہ صرف معیشت کو فائدہ ہوگا بلکہ ملک کا مثبت تاثر بھی دنیا بھر میں ابھرے گا۔ امید ہے کہ یہ اقدام ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوگا جہاں پاکستان کا قدرتی حسن اور مہم جوئی کی صلاحیتیں دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کریں گی۔