google-site-verification=aZNfMycu8K7oF6lNUgjpjoa8ZAyM0qfHriwatL8flQ4
Tremors in supreme court

اسلام آباد – ملک کی اعلیٰ عدلیہ، سپریم کورٹ آف پاکستان، میں اس وقت غیر معمولی بے چینی اور ارتعاش کی لہر دو گئی ہے جب اطلاعات کے مطابق دو سینیئر ججوں نے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے کے آپشن پر سنجیدگی سے غور شروع کر دیا ہے۔ یہ پیش رفت آئین میں کی گئی حالیہ اہم تبدیلیوں کے بعد سامنے آئی ہے، جس نے عدلیہ کی آزادی اور مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

27ویں آئینی ترمیم کا تنازعہ

پارلیمنٹ نے حال ہی میں 27ویں آئینی ترمیم کو بھاری اکثریت سے منظور کیا ہے، جس کے ذریعے ملک میں ایک وفاقی آئینی عدالت (Federal Constitutional Court) کے قیام کی راہ ہموار کی گئی ہے۔ ناقدین اور قانونی برادری کا ایک بڑا حصہ اس ترمیم کو عدلیہ کے اختیارات کو محدود کرنے اور اس کے ڈھانچے کو کمزور کرنے کی کوشش قرار دے رہا ہے۔

ذرائع کے مطابق، سپریم کورٹ کے بعض ججز ان آئینی ترامیم کے بعد عدلیہ کے ادارہ جاتی وقار کو برقرار رکھنے کے طریقوں پر غور کر رہے ہیں۔ اس پس منظر میں، دو ججوں کی جانب سے استعفیٰ دینے کا آپشن زیرِ غور آنا ملک کی عدالتی تاریخ میں ایک سنگین موڑ ہے۔ اگر یہ استعفے حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں، تو اس کے قانون اور سیاست پر دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

ادارہ جاتی آزادی کی جنگ

ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ ایک طرف جہاں یہ دو جج استعفے پر غور کر رہے ہیں، وہیں سپریم کورٹ کے اندر کچھ دیگر سینیئر ججز انہیں اپنے عہدوں پر برقرار رہنے اور نظام کے اندر رہ کر عدلیہ کی آزادی کے لیے لڑنے پر زور دے رہے ہیں۔ ان ججز کا مؤقف ہے کہ استعفیٰ دینا مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ ادارے کی بقا کے لیے مزاحمت ضروری ہے۔

قانونی برادری بھی اس صورتحال پر منقسم دکھائی دیتی ہے۔ ملک بھر کی بار کونسلز اور وکلاء کنونشنز نے اس ترمیم کے خلاف سخت مذمتی قراردادیں پاس کی ہیں۔ کراچی بار کی ایک کنونشن نے تو اس ترمیم کو آئین کے دفاع اور تحفظ کے حلف سے انحراف قرار دیتے ہوئے اسے پارلیمنٹیرینز کی غداری سے تعبیر کیا ہے۔

چیف جسٹس کا کردار اور قانونی برادری کا ردعمل

ان اہم واقعات کے دوران، سابق اور موجودہ ججز اور وکلاء نے چیف جسٹس سے ادارے کی آزادی کے لیے واضح اور ٹھوس مؤقف اپنانے کی اپیل کی ہے۔ تاہم، یہ اطلاعات بھی ہیں کہ چیف جسٹس نے اس معاملے پر کوئی باقاعدہ مکمل عدالتی اجلاس (Full Court Meeting) طلب نہیں کیا ہے۔ سینئر وکلاء نے اس صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب عدلیہ کے ارد گرد ادارہ جاتی انتشار برپا ہو رہا ہے، تو قیادت کا کردار مزید اہم ہو جاتا ہے۔

یہ بحران اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم نے صرف سیاسی اور قانونی بحث ہی نہیں چھیڑی ہے، بلکہ یہ براہ راست سپریم کورٹ کے اندرونی استحکام اور ججوں کے اعتماد کو بھی متزلزل کر رہی ہے۔ عدالتی مبصرین کے مطابق، یہ دور پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ میں ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔

About The Author

صفراوادی‘: انڈونیشیا کا وہ ’مقدس غار جہاں مکہ تک پہنچانے والی خفیہ سرنگ‘ موجود ہے جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے کیا دیکھا؟ سی ڈی اے ہسپتال میں لفٹ خراب ٹریفک پولیس جدید طریقہ واردات