google-site-verification=aZNfMycu8K7oF6lNUgjpjoa8ZAyM0qfHriwatL8flQ4
Trump change the presidency style

واشنگٹن: ریاستہائے متحدہ امریکہ کے سیاسی منظر نامے میں حالیہ برسوں کے دوران “شاہی صدارت” کی اصطلاح ایک بار پھر بحث کا مرکز بن گئی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ اقتدار میں انتظامی اختیارات کے بے دریغ استعمال اور ریاستی اداروں پر صدارتی گرفت مضبوط کرنے کے اقدامات نے ماہرینِ قانون اور سیاسی تجزیہ کاروں کو ایک نئی بحث میں الجھا دیا ہے۔

شاہی صدارت سے کیا مراد ہے؟

تاریخی طور پر “شاہی صدارت” سے مراد ایک ایسا صدارتی نظام ہے جہاں صدر اپنے آئینی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے مقننہ (کانگریس) اور عدلیہ کے مقابلے میں غیر معمولی طاقت حاصل کر لیتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ پالیسیوں اور بیانات سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ وہ امریکی صدارت کو روایتی جمہوری ڈھانچے سے نکال کر ایک ایسے مقام پر لے جانا چاہتے ہیں جہاں صدر کی مرضی ہی ریاست کی حتمی پالیسی بن جائے۔

ٹرمپ کے دور میں اختیارات کا ارتقاء

صدر ٹرمپ نے اپنے اقتدار کے دوسرے مرحلے میں کئی ایسے اقدامات کیے ہیں جو ان کے بڑھتے ہوئے اختیارات کی نشاندہی کرتے ہیں:

  1. سرکاری اداروں پر براہِ راست کنٹرول: ٹرمپ انتظامیہ نے وفاقی اداروں کے ملازمین کو سیاسی وفاداری کی بنیاد پر تبدیل کرنے یا ہٹانے کی پالیسی اپنائی ہے، تاکہ وہ صدارتی احکامات پر بغیر کسی رکاوٹ کے عمل کر سکیں۔
  2. وزارتِ انصاف کا استعمال: ناقدین کا کہنا ہے کہ صدر نے نظامِ انصاف کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرنے اور اپنے حامیوں کو تحفظ دینے کے لیے ڈھال بنایا ہے۔
  3. انتظامی احکامات کا کثرت سے استعمال: قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ (کانگریس) پر انحصار کرنے کے بجائے صدر نے انتظامی احکامات کے ذریعے اہم فیصلے نافذ کرنے کو ترجیح دی ہے، جو کہ براہِ راست صدارتی طاقت کا اظہار ہے۔

مقننہ اور عدلیہ کا کردار

امریکی آئین “طاقت کی تقسیم” (Checks and Balances) کے اصول پر مبنی ہے، جس کے تحت صدر کے اختیارات کو عدالتیں اور کانگریس قابو میں رکھتی ہیں۔ تاہم، حالیہ برسوں میں عدالتی تعیناتیوں، بالخصوص سپریم کورٹ میں قدامت پسند ججوں کی اکثریت نے صدر کے حق میں فیصلوں کی راہ ہموار کی ہے۔ اس صورتحال نے ان اداروں کی نگرانی کرنے کی صلاحیت پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

جمہوریت پر اثرات

ماہرینِ سیاست کا ایک بڑا طبقہ اس رجحان کو امریکی جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دے رہا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ اگر صدارتی اختیارات پر کوئی قدغن نہ رہی تو امریکہ ایک “آئینی جمہوریت” سے نکل کر “آمریت” کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ دوسری طرف، ٹرمپ کے حامیوں کا خیال ہے کہ ملک کو درپیش پیچیدہ مسائل کے حل کے لیے ایک طاقتور اور فیصلہ کن صدر کی ضرورت ہے جو روایتی دفتری رکاوٹوں کو خاطر میں نہ لائے۔

مستقبل کا منظر نامہ

ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ اقدامات نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ صدارتی دفتر کو محض ایک انتظامی عہدے کے بجائے طاقت کے حتمی سرچشمے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ آنے والے وقت میں یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ کیا امریکی آئینی ڈھانچہ ان بڑھتے ہوئے صدارتی اختیارات کا بوجھ سہار سکے گا یا پھر “شاہی صدارت” کا یہ تصور مستقل طور پر امریکی سیاست کا حصہ بن جائے گا۔

یہ بحث محض ایک فرد کے گرد نہیں بلکہ اس بنیادی سوال پر ہے کہ کیا اکیسویں صدی میں جمہوریت کو بچانے کے لیے طاقتور حکمران ضروری ہیں یا پھر اداروں کی خود مختاری ہی اصل تحفظ ہے۔

About The Author

Jobs 14 Dec 2025 Jobs 9.12.2025 Babar Azam Schedule Jobs 07 Dec 2025 آج کی نوکریاں