google-site-verification=aZNfMycu8K7oF6lNUgjpjoa8ZAyM0qfHriwatL8flQ4
Urdu

اُس کی کتّھئی آنکھوں میں ہیں جنتر منتر سب

احمد حاطب صدیقی (ابونثر)

ہفتۂ رفتہ کی بات ہے۔ علومِ ابلاغیات کے ایک اُستاد نے یہ دلچسپ صوتی سوال اِس عاجز کو مزید عاجز کرنے کے لیے ارسال کیا:

’’اکثر کہا جاتا ہے کہ میں نے اِسے پالا پوسا ہے، تو یہ ’پوسا‘ کیا ہے؟ ذرا ’پوسے‘ کی تعریف بیان فرمائیے۔ ’پالا‘ تو سمجھ میں آتا ہے، پَر یہ ’پوسا‘ کیا ہے؟‘‘

سوال سنتے ہی ایک پرانا لطیفہ یاد آگیا۔

ایک بُقراط قسم کا پَلا پَلایا بچہ، دبیز شیشوں کی عینک لگائے ہوئے، ایک کتب فروش کی دکان پر پہنچا اور اُس سے پوچھا:

’’انکل! آپ کے پاس وہ کتاب ہوگی… وہ کیا نام کہ … ’بچوں کی پرورش‘؟‘‘

دُکان دار بولا: ’’ہاں بیٹا! ہے تو سہی، مگر وہ کتاب تو والدین کے پڑھنے کی چیز ہے۔ آپ اُس کتاب کو پڑھ کر کیا کریں گے؟‘‘

بچے نے کہا: ’’بس میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ میرے والدین میری پرورش ٹھیک طریقے سے کررہے ہیں یا نہیں‘‘۔

پس یہ سوال سُن کر دل میں خیال گزراکہ ’پوسا‘ کے معنی پوچھ کر شاید اُستادِ محترم بھی تسلی کرنا چاہتے ہوں گے کہ اُن کے والدین نے اُن کو صرف پالا ہے یا پالنے کے ساتھ ساتھ پوسا بھی ہے۔ خیر، جب یہ خیال ہمارے دل سے گزر رہا تھا تو ہم نے اسے گزر جانے دیا۔

بات یہ ہے کہ علومِ ابلاغیات کے شعبے تو ہماری بہت سی جامعات میں ہیں، مگر جو زبان وطنِ عزیز پاکستان میں ذریعۂ ابلاغ ہے، اُسی زبان سے ان شعبوں کے طالب علموں کو نابلد رکھا جاتا ہے۔ سب جانتے اور عملاً مانتے ہیں کہ پاکستان میں ’ابلاغِ عامّہ‘ کی زبان، قومی زبان اُردو ہی ہے۔ مگرجامعات میں ابلاغیات کے طلبہ و طالبات کو پروفیسر صاحبان دنیا جہان کی پٹی پڑھا دیتے ہیں، بس اُردو ہی نہیں پڑھاتے۔ ہمارے نصاب ساز ذرا نہیں سوچتے کہ جس زبان میں اِن بچوں کو پڑھایا جائے گا، اُس زبان میں وہ انگلستان میں تو ’شاید‘ ابلاغ کرنے میں کسی نہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوجائیں، مگر پاکستان میں تو ہر آئے گئے سے یہی پوچھتے پھریں گے کہ یہ ’پوسا‘ کیا ہے؟

اِبلاغ کے لیے بیش تر گفتگو یا تحریر کا سہارا لیا جاتا ہے۔ تحریر اور تقریرکی دل کشی کا انحصار اندازِ بیان کی دل کشی پر ہے۔ بیان کو دل کش بنانے کے لیے، دوسری زبانوں کی طرح، اُردو میں بھی مرکب الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ ان مرکبات کی کئی اقسام ہیں۔ مگر ہمارے آج کے موضوع کا تعلق ان میں سے صرف دو اقسام سے ہے۔آئیے ذرا باری باری دونوں اقسام پر ایک ایک نظر ڈال لیں۔

مرکب الفاظ کی ایک قسم ایسی ہے جس میں ایک بامعنی لفظ کے ساتھ دوسرا بامعنی لفظ جوڑ کر لکھا یا بولا جاتا ہے۔ اس سے کلام میں حُسن پیدا ہوجاتا ہے۔ مثلاً جان پہچان، دُنیا جہان، چال چلن، بُھولا بھٹکا، جوڑ توڑ، روک ٹوک یا روک تھام، طور طریقے اور کھیل کود وغیرہ۔ ان میں سے ہر مرکب کے دونوں الفاظ ایک ہی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے بولے جاتے ہیں۔ لیکن دونوں میں سے ہر لفظ اکیلے اکیلے بھی استعمال ہوتا ہے اور اپنے معنی رکھتا ہے۔ مثال کے طور پراس قسم کا فقرہ اکثر سننے میں آتا ہے کہ ’’زید سے میری جان پہچان ہے‘‘۔

لیکن اگر آپ ابن انشاؔ بلکہ انشاؔ جی ہیں تو زید کے بجائے کسی اور کا ذکر لے بیٹھیں گے اور ’جان پہچان‘ کا اعتراف یوں کریں گے:

وہ لڑکی اچھی لڑکی ہے، تم نام نہ لو ہم جان گئے
وہ جس کے لانبے گیسو ہیں، پہچان گئے پہچان گئے

ایسے مرکبات کو، جن کے دونوں الفاظ بامعنی ہوں، ’تابع موضوع‘ کہتے ہیں۔ ’موضوع‘ کا مطلب ہے وضع کیا ہوا یا بنایا ہوا۔ ہمارے محدثین بھی من گھڑت احادیث کے لیے ’موضوع‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ یعنی بنائی ہوئی یا ’وضعی‘۔ مراد یہ کہ یہ اصلاً ’حدیث‘ ہے ہی نہیں۔ اوپر’تابع موضوع‘ کے جن مرکبات کی مثالیں دی گئی ہیں، وہ مرکبات بھی بنائے ہوئے مرکبات ہیں، اور جس طرح بنا لیے گئے ہیں اُسی طرح سے بولے یا لکھے جاتے ہیں۔ ان میں کوئی ترمیم یا تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔

’تابع‘ کا مطلب ہے پیچھے پیچھے چلنے والا، پیروی کرنے والا۔ پیروی کرنے کو ’اِتِّباع‘ کہتے ہیں۔ جس شخص نے ایمان کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے کسی صحابی کی زیارت کی ہو، اُن سے درس لیا ہو اور اُن کی پیروی کی ہو، اُس شخص کو اصطلاحاً ’تابعی‘ کہا جاتا ہے، جس کی جمع ’تابعین‘ ہے۔ ’تابعین‘ کے پیروکاروں کو ’تبع تابعین‘ کہتے ہیں۔ جس کی پیروی کی جائے وہ’متبوع‘ ہے۔ ’تابع‘ وہی لفظ ہے جسے ڈاک خانوں اور کچہریوں کے آگے دری بچھاکر بیٹھنے والے عرائض نویسوں نے اپنا ’تابع دار‘ (تابعدار) بنا لیا ہے: ’’آپ کا تابعدار اختر شمار‘‘۔ غلط العام ہوجانے کی وجہ سے اب یہ لفظ لغات میں بھی آگیا ہے۔ حالاں کہ ’تابع‘ کا مطلب ہی پیروکار اور اطاعت گزار ہے۔ اس کے ساتھ لگایا جانے والا ’دار‘ فارسی مصدر ’داشتن‘ (یعنی رکھنا) سے مشتق ہے۔ بطورِ لاحقہ استعمال کیا جائے تو ’دار‘ کا مطلب ہوگا ’رکھنے والا‘ ۔ زمین دار (زمین رکھنے والا)، جاگیردار (جاگیر رکھنے والا)، زردار (زر رکھنے والا) اور مال دار (مال رکھنے والا)۔ یوں ’تابع دار‘ کے لفظی معنے ہوئے ’پیروکار رکھنے والا‘۔ چوں کہ پیروکار رکھنا جائز ہے، چناں چہ کچھ لوگ ’تابعدار‘ لکھنا بھی جائز سمجھتے ہیں۔

مرکب الفاظ کی ایک اور قسم ایسی ہے جس میں کسی بامعنی لفظ کے ساتھ ایک بے معنی لفظ لگا کر مرکب بنا لیا جاتا ہے۔ اس سے بھی کلام میں حُسن اور زور پیدا ہوجاتا ہے۔ بامعنی لفظ یعنی ’متبوع‘ کے پہلے حرف کو زیادہ تر ’واؤ‘ سے بدل کر اُس کا ’تابع‘ بنا لیتے ہیں۔ مثلاً کھانا وانا، روٹی ووٹی، سالن والن اورپانی وانی وغیرہ۔ پنجابی زبان میں واؤ کے بجائے ’ش‘ لگانے کا رواج ہے۔’’سانوں روٹی شوٹی کھواؤ‘‘۔ ایسا تابع الگ سے استعمال نہیں ہوسکتا، کیوں کہ اس کے کوئی معنی ہی نہیں ہوتے۔ مُہمَل لفظ ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اسے ’تابعِ مُہمَل‘ کہتے ہیں۔ مُہمَل کا مطلب ہے بے معنی، لغو، مجہول اور ناکارہ۔ مُہمَل کے پہلے میم پر پیش اور دوسرے میم پر زبر ہے۔ ہم نے اپنے ذرائع ابلاغ کے کچھ جغادریوں کو دوسرے میم کے نیچے زیر لگاکر بولتے سنا ہے۔ یہ غلط تلفظ ہے۔ اس تلفظ سے بول کر وہ خود مُہمَل لگنے لگتے ہیں۔ واؤ والے تابع مُہمَل کو راحتؔ اندوری مرحوم نے ایک غزل میں استعمال کیا اور غالباً بیگم کا نقشہ کھینچ کر متاثرین سے خوب داد سمیٹی۔ تین اشعار ملاحظہ ہوں:

اُس کی کتّھئی آنکھوں میں ہیں جنتر منتر سب
چاقو واقو، چُھریاں وُریاں، خنجر ونجر سب
جس دن سے تم رُوٹھیں، مجھ سے رُوٹھے رُوٹھے ہیں
چادر وَادر، تکیہ وَکیہ، بستر وِستر سب
مجھ سے بچھڑ کر وہ بھی کہاں اب پہلے جیسی ہے
پھیکے پڑ گئے کپڑے وَپڑے، زِیور وِیور سب

لیکن ضروری نہیں کہ تابعِ مُہمَل واؤ ہی لگا کر بنایا جائے۔ بے واؤ کے بھی بہت سے عجیب عجیب تابعِ مُہمَل اُردو میں مستعمل ہیں۔ ان عجیب و غریب مُہمَل الفاظ کے بھی کوئی معنی نہیں ہوتے۔ انھیں بھی الگ سے استعمال نہیں کیا جا سکتا اور ان مہملات میں بھی کوئی ترمیم یا تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔یہ جس طرح رواج پاگئے ہیں اِنھیں اسی طرح لکھا یا بولا جائے گا۔مثلاً: چوری چکاری، توبہ تِلّا، دانہ دُنکا، مَیل کُچیل، ٹھیک ٹھاک، سچ مُچ، شور شرابا، غُل غَپاڑا، نیا نویلا یا نئی نویلی، بچا کُھچا یا بچی کُھچی اور گالی گلوچ وغیرہ وغیرہ۔ اسی فہرست میں ’پالا پوسا‘ بھی شامل کرلیجیے۔کہنا فقط یہ تھا کہ ’پوسا‘ تابعِ مُہمَل ہے!

صفراوادی‘: انڈونیشیا کا وہ ’مقدس غار جہاں مکہ تک پہنچانے والی خفیہ سرنگ‘ موجود ہے جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے کیا دیکھا؟ سی ڈی اے ہسپتال میں لفٹ خراب ٹریفک پولیس جدید طریقہ واردات