
کی ورڈز: ممبئی، گھاٹکوپر، لسانی تنازعہ، مراٹھی زبان، ہراسانی، خاتون کو ہراساں کرنا، ہندوستان میں زبان، مہاراشٹر، لسانی بنیاد پر تفریق، سماجی مسائل، شہری حقوق، ممبئی کی خبریں، لسانی سیاست، ہندوستان میں اقلیتی زبانیں، زبان کی آزادی۔
ممبئی: ہندوستان کے مالیاتی دارالحکومت ممبئی میں زبان کے حوالے سے ایک تازہ تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے، جب گھاٹکوپر کے علاقے میں ایک خاتون کو مبینہ طور پر مراٹھی نہ بولنے پر افراد کے ایک گروہ کی جانب سے ہراسانی کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ واقعہ ایک بار پھر ہندوستان میں لسانی بنیادوں پر بڑھتی ہوئی کشیدگی اور علاقائی شناخت کے نام پر اقلیتی زبانوں کے بولنے والوں کو درپیش چیلنجز کو اجاگر کرتا ہے۔
واقعہ کی تفصیلات:
اطلاعات کے مطابق، یہ واقعہ ممبئی کے گھاٹکوپر علاقے میں پیش آیا جہاں ایک خاتون کو اس وقت ہراساں کیا گیا جب وہ مراٹھی زبان میں بات نہیں کر رہی تھی۔ مبینہ طور پر، افراد کے ایک گروہ نے خاتون کو گھیر لیا اور اس سے پوچھا کہ “کیا آپ ہندوستان سے نہیں ہیں؟” کیونکہ وہ مراٹھی نہیں بول رہی تھی۔ یہ الفاظ نہ صرف حیران کن ہیں بلکہ یہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ کس طرح زبان کو قومی شناخت اور تعلق کی بنیاد بنایا جا رہا ہے، جس سے لسانی اقلیتوں کے لیے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔
خاتون نے اس واقعے کے بعد اپنی پریشانی اور خوف کا اظہار کیا ہے، اور یہ واقعہ سوشل میڈیا پر بھی زیر بحث ہے، جہاں صارفین اس طرح کے رویے کی مذمت کر رہے ہیں اور لسانی تفریق کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔
ماضی کے لسانی تنازعات اور ممبئی کا پس منظر:
ممبئی، جو مہاراشٹر کا دارالحکومت ہے، ماضی میں بھی لسانی تنازعات کا مرکز رہا ہے۔ مہاراشٹر میں مراٹھی زبان کو ریاستی زبان کے طور پر خصوصی اہمیت حاصل ہے، اور کئی بار یہ دیکھا گیا ہے کہ غیر مراٹھی بولنے والوں کو لسانی بنیادوں پر نشانہ بنایا گیا ہے۔ خاص طور پر، مہاراشٹر نو نرمان سینا (MNS) جیسی جماعتیں مراٹھی زبان اور ثقافت کے تحفظ کے نام پر غیر مراٹھی بولنے والوں کے خلاف مہم چلاتی رہی ہیں۔
- تاریخی پس منظر: ممبئی ایک کاسموپولیٹن شہر ہے جہاں ہندوستان کے مختلف حصوں سے لوگ روزگار اور بہتر زندگی کی تلاش میں آتے ہیں۔ یہاں ہندی، گجراتی، اردو، تمل، تیلگو، بنگالی اور دیگر کئی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ یہ لسانی تنوع شہر کی شناخت کا حصہ ہے، لیکن بعض اوقات علاقائی قوم پرستی کے نام پر اس تنوع کو چیلنج کیا جاتا ہے۔
- سیاسی پہلو: لسانیت کا مسئلہ اکثر سیاسی جماعتوں کے لیے ایک اہم ایجنڈا رہا ہے، جو علاقائی شناخت اور ثقافت کے نام پر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس سے لسانی اقلیتوں کے خلاف تعصب اور ہراسانی کے واقعات میں اضافہ ہوتا ہے۔
لسانی بنیاد پر ہراسانی کے سماجی اثرات:
لسانی بنیاد پر ہراسانی کے واقعات کے سماجی اثرات بہت گہرے ہوتے ہیں۔
- خوف اور عدم تحفظ: ایسے واقعات لسانی اقلیتوں میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس پیدا کرتے ہیں، جو انہیں اپنی مادری زبان بولنے یا اپنی ثقافت کا اظہار کرنے سے روکتے ہیں۔
- سماجی تقسیم: یہ واقعات معاشرے میں لسانی بنیادوں پر تقسیم کو بڑھاتے ہیں، جس سے مختلف لسانی گروہوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوتی ہے۔
- شہری حقوق کی خلاف ورزی: ہندوستان کا آئین ہر شہری کو اپنی زبان، ثقافت اور مذہب کے اظہار کی آزادی دیتا ہے۔ لسانی بنیاد پر ہراسانی ان بنیادی شہری حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
- معاشی اثرات: اگر ایسے واقعات بڑھتے ہیں تو یہ شہر کی کاسموپولیٹن شناخت اور اس کی معاشی سرگرمیوں کو بھی متاثر کر سکتے ہیں، کیونکہ لوگ ایسے شہروں میں رہنا یا کام کرنا پسند نہیں کریں گے جہاں انہیں لسانی بنیادوں پر تفریق کا سامنا ہو۔
- سیاحت اور سرمایہ کاری پر اثر: ایک ایسا شہر جہاں لسانی تنازعات عام ہوں، وہ سیاحت اور سرمایہ کاری کے لیے پرکشش نہیں رہتا، جس سے شہر کی معیشت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
آئینی حقوق اور لسانی آزادی:
ہندوستان ایک کثیر لسانی ملک ہے جہاں سینکڑوں زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ہندوستان کا آئین ہر شہری کو اپنی مادری زبان بولنے اور اپنی ثقافت کو فروغ دینے کا حق دیتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 29 اور 30 اقلیتی گروہوں کے تعلیمی اور ثقافتی حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔
- آرٹیکل 29: یہ شہریوں کے کسی بھی طبقے کو اپنی مخصوص زبان، رسم الخط یا ثقافت کو محفوظ رکھنے کا حق دیتا ہے۔
- آرٹیکل 30: یہ تمام اقلیتوں کو، چاہے وہ مذہب پر مبنی ہوں یا زبان پر مبنی، اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا حق دیتا ہے۔
ان آئینی دفعات کے باوجود، لسانی بنیادوں پر تفریق اور ہراسانی کے واقعات ہندوستان کے مختلف حصوں میں سامنے آتے رہتے ہیں۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آئینی حقوق کی موجودگی کے باوجود، سماجی سطح پر لسانی رواداری اور قبولیت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
آگے کا راستہ: رواداری اور باہمی احترام کو فروغ دینا:
اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے حکومت، سول سوسائٹی اور میڈیا کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
- قانون کا نفاذ: لسانی بنیاد پر ہراسانی اور تفریق کے خلاف سخت قوانین کا نفاذ اور ان پر عمل درآمد ضروری ہے۔
- آگاہی مہمات: عوام میں لسانی تنوع کی اہمیت اور باہمی احترام کو فروغ دینے کے لیے آگاہی مہمات چلائی جانی چاہئیں۔ اسکولوں اور کالجوں میں لسانی رواداری کے بارے میں تعلیم دی جانی چاہیے۔
- سیاسی ذمہ داری: سیاسی جماعتوں کو لسانی بنیادوں پر نفرت پھیلانے سے گریز کرنا چاہیے اور اس کے بجائے لسانی ہم آہنگی کو فروغ دینا چاہیے۔
- میڈیا کا کردار: میڈیا کو ایسے واقعات کو ذمہ داری سے رپورٹ کرنا چاہیے اور لسانی تفریق کے بجائے لسانی تنوع کی خوبصورتی کو اجاگر کرنا چاہیے۔
- سول سوسائٹی کی سرگرمیاں: سول سوسائٹی کی تنظیمیں مختلف لسانی گروہوں کے درمیان مکالمے اور افہام و تفہیم کو فروغ دینے کے لیے سرگرمیاں انجام دے سکتی ہیں۔
ممبئی جیسے کاسموپولیٹن شہر میں، جہاں مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک ساتھ رہتے اور کام کرتے ہیں، لسانی رواداری اور باہمی احترام بہت ضروری ہے۔ یہ شہر کی ترقی اور امن کے لیے بنیادی ہے۔
نتیجہ:
ممبئی کے گھاٹکوپر میں خاتون کو مراٹھی نہ بولنے پر ہراساں کیے جانے کا واقعہ ایک افسوسناک حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ ہندوستان میں لسانی بنیادوں پر تفریق اور ہراسانی ابھی بھی موجود ہے۔ یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ آئینی حقوق کی موجودگی کے باوجود، سماجی سطح پر لسانی رواداری اور قبولیت کو فروغ دینے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ممبئی جیسے شہر کی خوبصورتی اس کے تنوع میں پنہاں ہے، اور اس تنوع کو برقرار رکھنے اور اس کا احترام کرنے کے لیے تمام شہریوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ زبان کو تقسیم کا ذریعہ بنانے کے بجائے، اسے رابطے اور افہام و تفہیم کا پل بنانا چاہیے۔