شام کی بدنام زمانہ صیدنایا جیل، جسے انسانی ذبح خانہ بھی کہا جاتا ہے، میں قید رہنے والے افراد کی کہانیاں دل دہلا دینے والی ہیں۔ یہ جیل بشار الاسد کے دور حکومت میں ایک ایسے مقام کے طور پر ابھری جہاں سیاسی مخالفین، انسانی حقوق کے کارکنوں اور عام شہریوں کو بے رحمی سے قید کیا جاتا تھا۔ حالیہ دنوں میں جب باغیوں نے اس جیل کا کنٹرول سنبھالا، تو کئی قیدیوں کی رہائی ہوئی، جنہوں نے اپنی قید کے دوران ہونے والے مظالم کی داستانیں سنائیں۔ ان کہانیوں میں حیرت انگیز اور دلخراش تجربات شامل ہیں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ایک واضح تصویر پیش کرتے ہیں۔
Table of Contents
قیدیوں کی رہائی
جب باغیوں نے صیدنایا جیل کا دروازہ کھولا تو قیدیوں کے چہرے خوف اور حیرت سے بھرے ہوئے تھے۔ ایک قیدی نے اپنی رہائی کے بعد بتایا کہ وہ 40 سال تک قید میں رہا اور جب اسے باہر نکالا گیا تو اسے معلوم ہوا کہ موبائل فون جیسی جدید ٹیکنالوجی دنیا میں موجود ہے، حالانکہ وہ اس سے بے خبر تھا۔ اس نے کہا، “میں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ دنیا اتنی بدل چکی ہے۔”
ایک اور قیدی، جس نے 30 سال قید کاٹنے کے بعد رہائی پائی، نے پوچھا کہ کیا صدام حسین نے اسد خاندان کا خاتمہ کر دیا ہے۔ اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ صدام حسین خود اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ یہ بات ان کے ذہن کی حالت کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ کتنی دیر تک حقیقت سے کٹے رہے۔
جیل میں زندگی
صیدنایا جیل میں کچھ قیدی ایسے بھی تھے جو جیل میں ہی پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے سورج کی روشنی، درخت، اور گھاس وغیرہ پہلی بار رہائی کے بعد دیکھی۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہمیں کبھی باہر جانے کا موقع نہیں ملا۔ ہم صرف دیواروں کے اندر زندگی گزار رہے تھے۔”
جیل میں قید ہونے والے افراد کو ایسی دردناک سزائیں دی گئیں کہ بعض قیدی مجنون ہو گئے۔ ان کو اپنا نام، شہر، اور علاقہ بھی یاد نہیں رہا۔ ایک سابق قیدی نے بتایا کہ “ہمیں کئی دن تک پانی اور کھانا نہیں دیا جاتا تھا۔ بے تاب ہو کر ہمیں پیشاب پینے پر مجبور ہونا پڑتا تھا۔”
مذہبی آزادی کی کمی
صیدنایا جیل میں قیدیوں کے لیے نماز، روزہ، یا کوئی بھی عبادت کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ انہیں روحانی سکون حاصل کرنے کا کوئی موقع نہیں دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہمیں اپنی عبادات کرنے سے روکا گیا تھا، جو ہماری روحانی صحت کے لیے بہت نقصان دہ تھا۔”
تشدد اور بدسلوکی
جیل کے اندر ہر وقت آگ کی بڑی بھٹی دہکتی رہتی تھی، جسے “حافظ الاسد کی جہنم” کہا جاتا تھا۔ جب کسی قیدی کو اس بھٹی میں جلانے کا فیصلہ کیا جاتا تو کہا جاتا “اسد کی جہنم میں خوش آمدید”۔ یہ الفاظ سن کر ہر کسی کے دل میں خوف پیدا ہو جاتا۔
قیدیوں کے ساتھ انتہائی ظالمانہ سلوک کیا جاتا تھا۔ ایک سابق قیدی نے بتایا کہ “ہمیں دھات کے سامان، کیبلز اور بجلی کے جھٹکوں سے پیٹا جاتا تھا۔” کچھ قیدیوں کے دانت توڑ دیے جاتے تھے اور انہیں مرے ہوئے چوہے کھانے پر مجبور کیا جاتا تھا۔
پھانسی کا خوف
ہر ہفتے 20 سے 50 قیدیوں کو پھانسی دی جاتی تھی۔ جنہیں پھانسی دینا ہوتی تھی ان کو رات بھر پیٹا جاتا تاکہ وہ خوفزدہ ہوں۔ ایک رہائی پانے والے قیدی نے کہا، “آج میری اور میرے 50 ساتھیوں کی پھانسی کا دن تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے آج ہی مجاہدین کو فتح عطا فرمادی۔”
نمک کی کان
جیل کے اندر ایک نمک کی کان بنائی گئی تھی جہاں قیدیوں کو زخمی کر کے نمک پر لٹایا جاتا تھا۔ یہ ایک انتہائی دردناک عمل تھا جو ان کی جسمانی حالت کو مزید خراب کرتا تھا۔
انسانی حقوق کی پامالی
صیدنایا جیل میں انسانی حقوق کی پامالی کا یہ عالم تھا کہ یہاں قید رہنے والے افراد کو بنیادی انسانی حقوق بھی فراہم نہیں کیے جاتے تھے۔ ان پر منظم انداز میں تشدد کیا گیا اور انہیں خوراک و صحت کی سہولیات سے محروم رکھا گیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے انسانی حقوق کے گروپوں نے اس جیل کو “انسانی قتل گاہ” قرار دیا ہے جہاں سیاسی مخالفین کو بغیر کسی جرم کے سالہا سال تک قید تنہائی میں رکھا گیا۔
عالمی توجہ
صیدنایا جیل کے مظالم پر عالمی سطح پر بھی توجہ دی جا رہی ہے۔ مختلف بین الاقوامی تنظیمیں اس بات پر زور دے رہی ہیں کہ شامی حکومت کو ان مظالم کا جواب دینا ہوگا اور متاثرین کو انصاف فراہم کرنا ہوگا۔
نتیجہ
صیدنایا جیل سے رہائی پانے والے افراد کی کہانیاں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ انسانی حقوق کا تحفظ کتنا اہم ہے۔ یہ داستانیں نہ صرف انفرادی تجربات ہیں بلکہ یہ ایک ایسے نظام کی عکاسی کرتی ہیں جہاں انسانیت کو نظرانداز کیا گیا ہے۔
یہ واقعہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہمیں اپنے معاشرتی نظام کو بہتر بنانے اور انسانی حقوق کا احترام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ایسے مظالم دوبارہ نہ ہوں۔
صیدنایا جیل کی داستانیں ہمیں بتاتی ہیں کہ آزادی کتنی اہم ہے اور ہمیں اس آزادی کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے تاکہ آئندہ نسلیں ایسے ظلم و ستم سے محفوظ رہ سکیں۔
Citations:
[1]
[2]
[3]
[4]
[5]
[6]
[7]
[8]
[9]