
سیاسی اتحاد کے حوالے سے ابھی دلی دور ہے، پی ٹی آئی کے حوالے سے ہمارے تحفظات ابھی دور نہیں ہوئے۔ مولانا فضل الرحمان
ٹرمپ بین الاقوامی معاملات سے نابلد ہے۔ فلسطین فلسطینیوں کا ہے اس سے دستبردار نہیں ہوا جاسکتا۔ مولانا فضل الرحمان
آٹھ فروری سیاہ ترین دن ہے۔ عوامی حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں۔ ووٹ کے حق کا تحفظ کریں گے۔ مولانا فضل الرحمان
مردان ( )سیاست میں ملاقات، ملنا جلنا ایک خاص قسم کی معروضی ضرورت کے تحت ہوا کرتا ہے۔ پہلے بھی اگر ملنا جلنا رہا ہے تو چھبیسویں آئینی ترمیم کے تحت رہا ہے۔ اللہ تعالی نے ہمیں اس مرحلے میں کامیابی عطا کی ہرچند کہ جمعیۃ نے وہ جنگ اکیلے لڑی لیکن ہم نے پھر بھی اپوزیشن ہو یا حکومتی جماعتیں ہوں ہم نے خالصتاً جمہوری پارلیمانی طریقہ کار کے ساتھ اس مرحلے کو کامیابی سے عبور کیا، اس دوران مدارس کی رجسٹریشن کا ایشو آیا تو وہ بھی الحمد للہ مذاکرات کے ذریعے سے ہی پاس ہوا۔ اس میں ایک کمی رہ گئی ہے کہ وفاق کی سطح پر جو ایکٹ پاس ہوا ہے وہ فوری صوبوں میں بھی پاس ہوتا لیکن اس میں غلط طور پر تاخیر کی جارہی ہے، صوبائی اسمبلیاں بھی اس قانون کو پاس کرتیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ ہر مسئلہ تلخی کے ساتھ حل نہ ہو ناخوشگوار طریقے سے حل نہ ہو بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے حل ہو۔
آج آٹھ فروری ہے جو سیاہ ترین دن ہے جس دن پچھلے سال بدترین قسم کی دھاندلی کی گئی، دھاندلی پورے ملک میں ہوئی ہے چاروں صوبوں میں ہوئی ہے یہاں اس صوبے میں بھی دھاندلی کی بنیاد پر حکومت بنائی گئی ہےہے دھاندلی کی بنیاد پر اکثریت بنائی گئی ہے وفاق میں دھاندلی کی بنیاد پر بنائی گئی ہے۔ جمعیۃ علماء اسلام کی پوزیشن تمام جماعتوں سے مختلف ہے ہم قومی اسمبلی میں بھی اپوزیشن میں بیٹھے ہوئے ہیں صوبوں میں بھی اپوزیشن میں بیٹھے ہوئے ہیں اپنے پلیٹ فارم سے اپنا موقف دے رہے ہیں۔ اس بات پر واضح ہیں کہ انتخابات میں ووٹ کا حق عوام کو ہے اور عوام کے حق پر شب خون مارنے کی اجازت نہ اسٹیبلشمنٹ کو ہے نہ بیورو کریسی کو ہے نہ وڈیرے کو ہے نہ خان کو ہے نہ نواب کو ہے یہ غریب عوام کا حق ہے اور ہم اس کے اس حق کے تحفظ کی جنگ لڑرہے ہیں۔ ایک دوسرے پر غیر سنجیدگی کا الزام لگانے میں حکومت اور پی ٹی آئی دونوں سچ کہہ رہے ہیں۔ اطمینان کی کوئی بات نہیں ہے جب تک عام آدمی کوئی بہتری محسوس نہ کرے یہ اشارات معمول کا اتار چڑھاؤ ہیں آئندہ سال روپے کی قدر گرے گی، جی ڈی پی بھی کم ہوگی اور مہنگائی اور بڑھے گی۔ اگر پی ٹی آئی صوبے میں دھاندلی کو تسلیم کرنے کی طرف آجائے جیساکہ ایک وقت میں آئے تھے تو بات کافی آگے بڑھ سکتی ہے۔ ہم نے چھبیسویں آئینی ترمیم میں عدلیہ، آئین، جمہوریت کو بچایا ہے عوام کے حقوق اور انسانی حقوق کو بھی بچایا ہے۔ اور جمہوری انداز میں جدوجہد کی ہے عدالت میں معاملہ جاتا ہے تو دیکھیں گے کہ عدالت کس طرف جاتی ہے۔ سیاسی اتحاد کے حوالے سے ابھی دلی دور ہےبات چیت چلتی رہتی ہے رابطے چلتے رہتے ہیں لیکن جمعیۃ علماء اسلام کے براہ راست جو تحفظات ہیں ابھی اس حوالے سے کوئی بات چیت اور پیش رفت نہیں ہوئی البتہ روزمرہ کے امور پر بات چیت چلتی ہے اور اتفاق رائے بھی کرتے ہیں۔ ٹرمپ اوٹ پٹانگ مار رہا ہے اسے عالمی معاملات کا ادراک ہی نہیں ہے امریکا میں حکومت سی آئی اے چلائے گی، جس طرح افغانستان میں طاقت ناکام ہوئی اسی طرح غزہ میں بھی اسرائیلی طاقت ناکام ہوئی ہے عالمی طاقتوں کا جنگی جنون زمین بوس ہورہا ہے یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرنا عالمی اصولوں اور قوانین کی بھی خلاف ورزی تھی جہاں آبادی زیادہ ہونے اور معاشی وسائل کی کمیابی کے باوجود انہیں آباد کیا گیا، لیکن اس وقت وہاں سب کچھ ظلم اور جبر کی بنیاد پر ہورہا ہے فلسطین فلسطینیوں کا ہے اور امریکا کی بے ڈھنگی باتوں کو ہم مسترد کرتے ہیں۔ انتخابات میں دھاندلی ایک تسلسل ہے اسے کہیں تو روکنا پڑے گا ہمارا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی جھگڑا نہیں ہے وہ اپنا کام کرے عوام اپنا کام کرے کسی کے حق پر ڈاکہ نہ ڈالے ہر ایک اپنے آئینی دائرہ کار کے اندر رہے تو کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ عمران خان کے گناہ گار یا بے گناہ ہونے کا مجھ سے تعلق نہیں ہے یہ عدالت کا معاملہ ہے لیکن میں سیاستدان کو جیل میں رکھنے کے حق میں نہیں ہوں میں اپنے مخالف سے میدان میں مقابلہ کرنے کا قائل ہوں مذاکرات کا قائل ہوں، میں اعتراف کرتا ہوں کہ ہم آپس کے اختلاف میں اعتدال برقرار نہیں رکھ سکے کافی آگے چلے گئے تھے لیکن ہم کافی حد تک معاملات کو اعتدال میں لے آئے ہیں اور میں اس سفر کو جاری رکھنا چاہتا ہوں۔