google-site-verification=aZNfMycu8K7oF6lNUgjpjoa8ZAyM0qfHriwatL8flQ4
islamabad donkey meat raid

اسلام آباد، (تاریخ: 28 جولائی 2025) – وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں عوامی صحت اور خوراک کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے جاری مہم کے دوران ایک ہولناک اور چونکا دینے والا انکشاف سامنے آیا ہے جس نے شہریوں کو گہری تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایک ابتدائی رپورٹ کے مطابق، شہر کے نواحی علاقوں میں گدھوں کو ذبح کر کے ان کا گوشت نہ صرف پاکستان میں مقیم غیر ملکیوں کو فراہم کیا جا رہا تھا بلکہ ان کی کھالیں اور گوشت باقاعدہ بیرونِ ملک بھی برآمد کیے جاتے تھے۔ یہ سنگین صورتحال ایک بڑے نیٹ ورک کی نشاندہی کرتی ہے جو غیر قانونی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث تھا، جس سے پاکستان کی خوراک کی حفاظت کے نظام پر سوالات اٹھتے ہیں۔

یہ انکشاف اس وقت ہوا جب مقامی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے شہر کے مضافات میں غیر قانونی سلاٹرنگ اور گوشت کی غیر معیاری فروخت کے خلاف کارروائیاں تیز کیں۔ ابتدائی تحقیقات اور حاصل شدہ شواہد کی بنیاد پر تیار کی گئی رپورٹ نے گدھوں کے گوشت کی غیر قانونی سرگرمیوں کے ایک وسیع دائرہ کار کو بے نقاب کیا ہے۔ یہ معاملہ نہ صرف خوراک کی ملاوٹ اور دھوکہ دہی کا ہے بلکہ اس میں بین الاقوامی روابط اور منظم جرائم پیشہ عناصر کی شمولیت کے پہلو بھی نمایاں ہو رہے ہیں۔

ابتدائی رپورٹ کے چونکا دینے والے انکشافات

ابتدائی رپورٹ نے اس مکروہ دھندے کی کئی اہم اور تشویشناک جہتوں کو سامنے لایا ہے:

1. گدھوں کا گوشت پاکستان میں مقیم غیر ملکیوں کو فراہم کیا جاتا تھا

رپورٹ کے مطابق، گدھوں کو ذبح کرنے کے بعد ان کا گوشت مقامی مارکیٹ میں فروخت نہیں کیا جاتا تھا بلکہ اسے خاص طور پر پاکستان میں مقیم غیر ملکیوں کو فراہم کیا جاتا تھا۔ یہ ایک انتہائی حساس پہلو ہے جو اس نیٹ ورک کی حکمت عملی اور نشانہ بنائے جانے والے صارفین کی نوعیت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا غیر ملکیوں کو اس گوشت کی نوعیت کا علم تھا یا انہیں دھوکہ دہی سے یہ گوشت فروخت کیا جا رہا تھا۔ یہ انکشاف نہ صرف پاکستان کی امیج پر منفی اثر ڈال سکتا ہے بلکہ یہاں مقیم غیر ملکی برادری میں بھی تشویش پیدا کر سکتا ہے۔

2. کھالیں اور گوشت باقاعدہ بیرونِ ملک بھی برآمد کیے جاتے تھے

ابتدائی رپورٹ کا ایک اور ہولناک انکشاف یہ ہے کہ گدھوں کی کھالیں اور بچا ہوا گوشت صرف مقامی طور پر استعمال نہیں ہوتا تھا بلکہ اسے باقاعدہ طور پر بیرونِ ملک بھی برآمد کیا جاتا تھا۔ یہ اس غیر قانونی کاروبار کے بڑے پیمانے اور منظم نوعیت کو ظاہر کرتا ہے۔ گدھے کی کھالیں عام طور پر چمڑے کی صنعت میں یا مشرقی ایشیائی ممالک میں روایتی ادویات کے لیے استعمال ہوتی ہیں، جہاں ان کی مانگ زیادہ ہے۔ گوشت کی بیرونِ ملک برآمد سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ یہ ایک منافع بخش اور وسیع نیٹ ورک تھا جو قومی اور بین الاقوامی سطح پر فعال تھا۔ یہ پہلو حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ بین الاقوامی سرحدوں پر اس طرح کی غیر قانونی تجارت کو کیسے روکے۔

3. غیر ملکی قصائی اپنے طریقے سے ذبح کرتا تھا

رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ گدھوں کو ذبح کرنے کا عمل غیر ملکی قصائیوں کے ذریعے انجام دیا جاتا تھا جو اپنے مخصوص طریقوں سے ذبح کرتے تھے۔ یہ نقطہ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے:

  • کیا یہ ذبح کے طریقے اسلامی اصولوں اور حلال معیارات کے مطابق تھے؟
  • کیا ان قصائیوں کے پاس ذبح کرنے کے لیے مطلوبہ مہارت اور لائسنس موجود تھے؟
  • غیر ملکی قصائیوں کی شمولیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ یہ ایک بین الاقوامی سطح پر منظم گروہ ہو سکتا ہے جس کے پاکستان کے اندر رابطے موجود ہیں۔

یہ بات حلال انڈسٹری اور خوراک کی حفاظت کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے، خاص طور پر جب گوشت کی برآمد بھی شامل ہو۔ پاکستان عالمی سطح پر حلال گوشت کی مارکیٹ میں ایک اہم کھلاڑی بننے کی کوشش کر رہا ہے، اور ایسے سکینڈل اس کوشش کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

4. مقامی مارکیٹ میں فروخت کے شواہد نہیں ملے

ابتدائی رپورٹ کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ تحقیقات میں اب تک گدھوں کے گوشت کی مقامی مارکیٹ میں فروخت کے شواہد نہیں ملے ہیں۔ یہ ایک حد تک اطمینان بخش ہے کہ یہ گوشت براہ راست پاکستانی صارفین تک نہیں پہنچ رہا تھا، جو شاید اس نیٹ ورک کا بنیادی ہدف نہیں تھے۔ تاہم، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ مقامی افراد اس کے اثرات سے محفوظ تھے۔ غیر ملکیوں کو فروخت اور بیرون ملک برآمد کے پہلوؤں کو مزید گہرائی سے جانچنے کی ضرورت ہے۔

پس منظر: غیر قانونی سلاٹرنگ کے خلاف جاری مہم

اسلام آباد میں اس چھاپے اور انکشاف سے قبل بھی غیر قانونی سلاٹرنگ اور غیر معیاری گوشت کی فروخت کے خلاف وقتاً فوقتاً کارروائیاں کی جاتی رہی ہیں۔ مقامی انتظامیہ، اسلام آباد فوڈ اتھارٹی، اور لائیو سٹاک ڈیپارٹمنٹ مشترکہ طور پر شہر میں خوراک کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے سرگرم ہیں۔ تاہم، گدھوں کے گوشت کا یہ سکینڈل اس بات کا اشارہ ہے کہ کچھ عناصر اتنے منظم اور بااثر ہو چکے ہیں کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظروں سے بچ کر بڑے پیمانے پر غیر قانونی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے۔

عام طور پر، ایسے غیر قانونی سلاٹر ہاؤسز گنجان آبادیوں سے دور، ویران یا دیہی علاقوں میں قائم کیے جاتے ہیں تاکہ حکام کی نظروں سے بچا جا سکے۔ ان کے پاس نہ تو مناسب صفائی کے انتظامات ہوتے ہیں اور نہ ہی صحت کے معیارات کا خیال رکھا جاتا ہے۔ بیمار، زخمی، یا مردہ جانوروں کو ذبح کرنا، اور ان کے گوشت کو انسانوں کی خوراک کے لیے استعمال کرنا ایک گھناؤنا جرم ہے جس کے انسانی صحت پر مہلک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

حکام کا ردعمل اور آئندہ کے اقدامات

اس ابتدائی رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد حکومتی حلقوں میں ہلچل مچ گئی ہے۔ وفاقی وزیرِ داخلہ نے اس معاملے کا سخت نوٹس لیا ہے اور متعلقہ اداروں کو فوری طور پر جامع تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے یقین دلایا ہے کہ اس نیٹ ورک کے تمام چھوٹے بڑے کرداروں کو بے نقاب کیا جائے گا اور انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

ایک سینئر پولیس افسر نے میڈیا کو بتایا کہ “ہم اس معاملے کی ہر پہلو سے تحقیقات کر رہے ہیں۔ غیر ملکی قصائیوں کی شمولیت اور بیرون ملک گوشت اور کھالوں کی برآمد کے پہلوؤں پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ ہم اس نیٹ ورک کی جڑوں تک پہنچیں گے اور اس میں ملوث تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔”

اسلام آباد فوڈ اتھارٹی نے بھی اپنی کارروائیوں کو مزید تیز کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ترجمان فوڈ اتھارٹی نے کہا کہ وہ شہر بھر میں گوشت کی دکانوں، ریستورانوں، اور سلاٹر ہاؤسز کی چیکنگ مزید سخت کریں گے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ عوام کو صرف خالص اور صحت بخش گوشت ہی دستیاب ہو۔ لائیو سٹاک ڈیپارٹمنٹ نے جانوروں کی غیر قانونی نقل و حرکت اور ذبح پر نظر رکھنے کے لیے اپنی کوششیں بڑھا دی ہیں۔

عوامی ردعمل اور صحت کے ماہرین کی تشویش

گدھوں کے گوشت کے سکینڈل کی خبر نے اسلام آباد کے شہریوں میں شدید اضطراب اور غصہ پیدا کیا ہے۔ بہت سے صارفین نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ کس طرح یہ غیر قانونی نیٹ ورک اتنے بڑے پیمانے پر کام کر رہا تھا اور حکام اسے روکنے میں ناکام رہے۔ سوشل میڈیا پر بھی اس موضوع پر شدید بحث جاری ہے، جہاں صارفین حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ عوامی صحت کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے مزید مؤثر اقدامات کیے جائیں۔

صحت کے ماہرین نے اس معاملے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ڈاکٹر عائشہ نعیم، جو ایک معروف ماہرِ اطفال ہیں، نے کہا، “گدھے کا گوشت انسانوں کے لیے استعمال کے لیے موزوں نہیں ہے۔ خاص طور پر اگر جانور بیمار ہوں یا غیر صحت بخش حالات میں ذبح کیے جائیں، تو یہ گوشت کئی قسم کے وائرل اور بیکٹیریل انفیکشنز کا سبب بن سکتا ہے جو انسانی جسم میں داخل ہو کر مہلک بیماریوں کو جنم دے سکتے ہیں۔ بچوں اور کمزور مدافعتی نظام والے افراد کے لیے یہ زیادہ خطرناک ہے۔”

ماحولیاتی تحفظ کے ماہرین نے بھی اس معاملے پر تشویش کا اظہار کیا ہے، خاص طور پر غیر قانونی سلاٹرنگ کے ماحولیاتی اثرات کے حوالے سے۔ غیر قانونی سلاٹر ہاؤسز سے پیدا ہونے والا فضلہ اور گندا پانی نہ صرف مقامی ماحول کو آلودہ کرتا ہے بلکہ زیر زمین پانی کے ذخائر اور قریبی دریاؤں کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے، جس کے طویل مدتی ماحولیاتی نتائج ہو سکتے ہیں۔

آگے کا راستہ: پائیدار حل اور سفارشات

اس طرح کے سنگین سکینڈلز کی روک تھام اور عوامی صحت کو مستقل بنیادوں پر محفوظ رکھنے کے لیے ایک پائیدار اور جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ درج ذیل اقدامات اس سمت میں اہم ثابت ہو سکتے ہیں:

  1. سپلائی چین کی مکمل نگرانی اور ٹریس ایبلٹی: گوشت کے پورے سپلائی چین کو ایک مضبوط نگرانی کے نظام کے تحت لایا جائے۔ جانوروں کی خریداری سے لے کر ان کے ذبح اور تقسیم تک ہر مرحلے کو ڈیجیٹل طور پر ریکارڈ کیا جائے تاکہ گوشت کی اصلیت اور معیار کو ٹریس کیا جا سکے۔
  2. سلاٹر ہاؤسز کا سخت آڈٹ: تمام موجودہ قانونی اور غیر قانونی سلاٹر ہاؤسز کا باقاعدگی سے سخت آڈٹ کیا جائے تاکہ صفائی، ذبح کے معیارات، اور گوشت کی کوالٹی کو یقینی بنایا جا سکے۔
  3. قوانین کا سخت نفاذ اور سزاؤں میں اضافہ: فوڈ سیفٹی اور لائیو سٹاک کے قوانین کا سختی سے نفاذ کیا جائے، اور ایسے گھناؤنے جرائم میں ملوث افراد کے لیے سزاؤں کو مزید سخت کیا جائے، جن میں بھاری جرمانے اور طویل قید کی سزائیں شامل ہوں۔
  4. انٹیلی جنس پر مبنی کارروائیاں: قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مزید مضبوط کریں تاکہ غیر قانونی سلاٹرنگ اور گوشت کی ملاوٹ کے دھندوں کا بروقت پتہ لگایا جا سکے۔
  5. بین الاقوامی تعاون: اگر گوشت اور کھالوں کی بیرون ملک برآمد کا معاملہ ثابت ہوتا ہے تو بین الاقوامی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کیا جائے تاکہ اس نیٹ ورک کی بین الاقوامی جڑوں کو کاٹا جا سکے۔
  6. عوامی آگاہی مہمات: صارفین کو صحت مند اور خالص گوشت کی پہچان اور خریداری کے محفوظ ذرائع کے بارے میں بڑے پیمانے پر آگاہی فراہم کی جائے۔ انہیں یہ بھی سکھایا جائے کہ کسی بھی مشکوک صورتحال میں حکام کو کیسے اور کہاں اطلاع دیں۔
  7. انعام کا نظام: معلومات فراہم کرنے والوں کے لیے ایک انعام کا نظام شروع کیا جائے تاکہ شہری ایسے غیر قانونی دھندوں کا پتہ لگانے میں حکام کی مدد کر سکیں۔
  8. مقامی قصائیوں کی تربیت اور لائسنسنگ: تمام قصائیوں کی باقاعدہ تربیت اور لائسنسنگ کا نظام متعارف کرایا جائے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ذبح کے تمام عمل حفظان صحت اور حلال معیارات کے مطابق ہوں۔
  9. ٹیکنالوجی کا استعمال: جدید ٹیکنالوجی جیسے CCTV کیمرے، GPS ٹریکنگ، اور ڈیٹا بیس مینجمنٹ سسٹم کو سلاٹر ہاؤسز اور گوشت کی ترسیل میں استعمال کیا جائے تاکہ شفافیت کو بڑھایا جا سکے۔

ایس ای او کے لیے کلیدی الفاظ (SEO Keywords)

یہ خبر مندرجہ ذیل کلیدی الفاظ کے ساتھ ایس ای او کے لیے آپٹمائز کی گئی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد تک رسائی حاصل ہو سکے:

  • اسلام آباد گدھوں کا گوشت
  • گدھے کا گوشت سکینڈل
  • غیر ملکیوں کو گدھوں کا گوشت
  • اسلام آباد میں گوشت کی ملاوٹ
  • غیر قانونی سلاٹرنگ پاکستان
  • گدھے کی کھالیں برآمد
  • گدھوں کے گوشت کی برآمد
  • پاکستانی فوڈ سیفٹی
  • حلال گوشت کا مسئلہ
  • غیر ملکی قصائی اسلام آباد
  • اسلام آباد کی تازہ خبر
  • عوامی صحت خطرے میں
  • گوشت مافیا پاکستان
  • آج کی بڑی خبر
  • اسلام آباد لائیو سٹاک ڈیپارٹمنٹ
  • اسلام آباد فوڈ اتھارٹی
  • گوشت کی کوالٹی کنٹرول
  • کھانے میں ملاوٹ
  • بین الاقوامی جرائم
  • پاکستانی خبریں
  • ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن اسلام آباد
  • گدھے کا گوشت حرام

اختتامیہ

اسلام آباد میں گدھوں کے گوشت کا یہ سکینڈل ایک سنگین مسئلہ ہے جو نہ صرف عوامی صحت کو خطرے میں ڈالتا ہے بلکہ ملک کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ابتدائی رپورٹ میں سامنے آنے والے بین الاقوامی رابطے اور بیرون ملک برآمد کے پہلو اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لیا جائے اور ایک منظم کریک ڈاؤن کے ذریعے اس نیٹ ورک کی جڑوں کو ہمیشہ کے لیے اکھاڑ پھینکا جائے۔ حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، اور عوام سب کو مل کر اس لعنت کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ شفافیت، سخت قوانین کا نفاذ، اور عوامی آگاہی ہی ہمیں ایک صحت مند اور محفوظ معاشرے کی طرف لے جا سکتی ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنے کھانے پینے کی اشیاء کے معیار پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں اور ایسے تمام عناصر کو بے نقاب کریں جو ہمارے صحت اور مستقبل سے کھیل رہے ہیں۔

صفراوادی‘: انڈونیشیا کا وہ ’مقدس غار جہاں مکہ تک پہنچانے والی خفیہ سرنگ‘ موجود ہے جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے کیا دیکھا؟ سی ڈی اے ہسپتال میں لفٹ خراب ٹریفک پولیس جدید طریقہ واردات