واشنگٹن ڈی سی: امریکی سپریم کورٹ اس وقت ایک انتہائی اہم اقتصادی اور قانونی معاملے پر غور کر رہی ہے جس کا براہ راست تعلق سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آئندہ صدارتی مہم اور ان کے اگلے دورِ حکومت میں ممکنہ تجارتی پالیسیوں سے ہے۔ یہ معاملہ ٹرمپ کے متوقع منصوبے سے متعلق ہے جس کے تحت وہ امریکہ میں درآمد کی جانے والی تمام اشیاء پر کمرشل ٹیرف (Universal Baseline Tariff) نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس مجوزہ پالیسی کے خلاف قانونی چیلنجز کی روشنی میں، سپریم کورٹ کا کردار کلیدی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔
ٹرمپ کا متنازعہ ٹیرف منصوبہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بارہا اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ اگر وہ دوبارہ صدر منتخب ہوتے ہیں تو وہ امریکی معیشت کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے تمام درآمدات پر ایک مخصوص فیصد کا ٹیرف عائد کریں گے۔ ان کے حامیوں کا خیال ہے کہ یہ امریکی صنعتوں کو تقویت دے گا اور تجارتی خسارے (Trade Deficit) کو کم کرے گا۔
- 10 فیصد کی ابتدائی تجویز: اگرچہ ٹرمپ نے مختلف اعداد و شمار کا ذکر کیا ہے، لیکن بنیادی تجویز یہ رہی ہے کہ تمام درآمد شدہ اشیاء پر کم از کم 10 فیصد کا ٹیکس عائد کیا جائے، جس میں مخصوص “دشمن ممالک” جیسے چین پر مزید سخت اور بلند ٹیرف لگائے جائیں گے۔
- قانونی بنیاد: ٹرمپ انتظامیہ نے ماضی میں بھی ٹیرف لگانے کے لیے 1962 کے ’ٹریڈ ایکسپینشن ایکٹ‘ (Trade Expansion Act) کے سیکشن 232 اور 1974 کے ’ٹریڈ ایکٹ‘ (Trade Act) کے سیکشن 301 جیسے قوانین کا سہارا لیا ہے۔ تاہم، ایک وسیع اور عالمگیر ٹیرف کے لیے ان قوانین کی تشریح عدالت میں چیلنج ہو سکتی ہے۔
سپریم کورٹ میں قانونی چیلنجز
اقتصادی تجزیہ کار اور قانونی ماہرین متفق ہیں کہ اگر ٹرمپ اپنے ٹیرف پلان پر عمل درآمد کرتے ہیں تو یہ فوری طور پر امریکی سپریم کورٹ میں چیلنج ہو جائے گا۔ بنیادی قانونی سوالات درج ذیل ہیں:
1. آئینی اختیارات کی حدود
سب سے اہم سوال کانگریس اور صدر کے درمیان تجارتی اختیارات کی تقسیم کا ہے۔ امریکی آئین کے تحت، تجارتی قوانین (بشمول ٹیرف) بنانے کا اختیار بنیادی طور پر کانگریس کے پاس ہے۔
- وفد اختیارات کا اصول (Delegation Doctrine): چیلنج کرنے والے یہ دلیل دیں گے کہ ٹرمپ کا ایسا وسیع ٹیرف لگانا آئین کی خلاف ورزی ہے کیونکہ یہ کانگریس کے اس اختیار کو غیر آئینی طریقے سے صدر کو سونپ دے گا۔ عدالت کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا موجودہ قوانین صدر کو اتنے بڑے پیمانے پر ٹیرف لگانے کی کھلی چھوٹ دیتے ہیں یا نہیں۔
2. موجودہ قوانین کی تشریح
کیا ٹریڈ ایکٹ 1974 (سیکشن 301) اور ٹریڈ ایکسپینشن ایکٹ 1962 (سیکشن 232) جیسے قوانین، جو صرف مخصوص نامنصفانہ تجارتی کارروائیوں یا قومی سلامتی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے تھے، ایک عالمگیر ٹیرف کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں؟ ناقدین کہتے ہیں کہ ان کا استعمال مقصد سے انحراف ہو گا۔
امریکی معیشت پر ممکنہ اقتصادی اثرات
ٹرمپ کے ٹیرف پلان کے معیشت پر گہرے اور وسیع اثرات مرتب ہونے کی توقع ہے۔
- مہنگائی کا دباؤ: ٹیرف بالآخر درآمد شدہ اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کر دیں گے، جس کا بوجھ براہ راست امریکی صارفین کو برداشت کرنا پڑے گا۔ اس سے ملک میں پہلے سے موجود مہنگائی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
- عالمی تجارتی جنگ: امریکہ کی جانب سے ٹیرف کے نفاذ کے بعد امکان ہے کہ دیگر ممالک، جیسے یورپی یونین اور چین، جوابی ٹیرف عائد کریں گے، جس سے امریکی برآمدات پر منفی اثر پڑے گا اور ایک مکمل عالمی تجارتی جنگ شروع ہو سکتی ہے۔
- جی ڈی پی میں سست روی: عالمی تجارت میں رکاوٹیں اور صارفین کی قوت خرید میں کمی امریکی مجموعی گھریلو پیداوار (GDP) کی شرح نمو کو سست کر سکتی ہے۔
- بزنس کی منصوبہ بندی میں غیر یقینی: کاروباری اداروں کو نئے ٹیرف کے سائے میں پیداواری لاگت، سپلائی چین اور قیمتوں کی منصوبہ بندی کرنے میں شدید غیر یقینی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سیاسی اور عدالتی تناظر
سپریم کورٹ کا فیصلہ ٹرمپ کی صدارت کے دوسرے دور کی معاشی سمت کا تعین کرے گا۔ اگر عدالت ٹرمپ کے ٹیرف اختیارات کو محدود کرتی ہے، تو انہیں کانگریس سے نئے قوانین منظور کرانے پڑیں گے، جو ایک منقسم کانگریس میں انتہائی مشکل ہو سکتا ہے۔
- قدامت پسند اکثریت: سپریم کورٹ میں قدامت پسند ججوں کی واضح اکثریت ہے، جن میں سے تین کو ٹرمپ نے خود نامزد کیا تھا۔ تاہم، یہ ججز وفاقی حکومتی ایجنسیوں کے اختیارات کو محدود کرنے کی بھی تاریخ رکھتے ہیں، جسے “انتظامی ریاست” (Administrative State) کہا جاتا ہے۔ اس لیے یہ واضح نہیں ہے کہ آیا وہ صدر کے انتظامی تجارتی اختیارات کی حمایت کریں گے یا انہیں محدود کریں گے۔
نتیجہ
ٹرمپ کا تجارتی منصوبہ امریکی اقتصادی پالیسی کو بنیادی طور پر بدل سکتا ہے۔ تاہم، اس منصوبے کی کامیابی کا انحصار سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر ہو گا کہ کیا امریکی صدر کو کانگریس کی واضح اجازت کے بغیر تمام درآمدات پر ٹیرف لگانے کا اتنا وسیع اختیار حاصل ہے یا نہیں۔ اقتصادی ماہرین اور عالمی تجارتی شراکت دار اس قانونی لڑائی کے حتمی نتائج کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔
