اسلام آباد، پاکستان— پاکستان کی پارلیمنٹ میں پیش کی گئی 27ویں آئینی ترمیم ملک کے عدالتی نظام اور فوج کے کمانڈ سٹرکچر میں غیر معمولی تبدیلیوں کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ اس مجوزہ ترمیم نے ملک میں ایک نئی سیاسی بحث چھیڑ دی ہے، اور ناقدین نے خبردار کیا ہے کہ یہ حکومت اور طاقتور فوج پر عدالتی نگرانی کو کمزور کر سکتی ہے۔
سینیٹ سے اس ترمیم کی منظوری کے بعد، اب اسے قومی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت سے پاس کرانا ہو گا تاکہ اسے قانون کی شکل دی جا سکے اور پھر صدر مملکت اس پر دستخط کریں گے۔
آئینی ترمیم کے دو اہم حصے
یہ ترمیم دو بنیادی شعبوں میں بڑی تبدیلیاں لائے گی:
1. فوجی کمانڈ اور لائف ٹائم استثنیٰ (Military Command and Immunity)
مجوزہ 27ویں ترمیم آئین کے آرٹیکل 243 میں تبدیلی کرتی ہے، جس کا مقصد ملک کے اعلیٰ فوجی افسران کو خصوصی آئینی تحفظ فراہم کرنا اور فوجی کمانڈ سٹرکچر میں تبدیلی لانا ہے۔
- چیف آف ڈیفنس فورسز (CDF) کا نیا عہدہ: ترمیم کے ذریعے ایک نیا عہدہ چیف آف ڈیفنس فورسز (CDF) تخلیق کیا جائے گا، جو موجودہ آرمی چیف کے پاس ہو گا اور انہیں فضائیہ اور بحریہ پر بھی اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی (CJCSC) کا عہدہ ختم ہو جائے گا۔
- لائف ٹائم استثنیٰ: ترمیم میں پانچ ستارہ (Five-Star) رینک کے افسران کو تاحیات فوج کے رینک، مراعات اور وردی رکھنے کی اجازت دینے کے ساتھ ساتھ، انہیں مجرمانہ مقدمات سے تاحیات استثنیٰ (Immunity from criminal prosecution for life) بھی دینے کی تجویز ہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر، جو حالیہ بھارت کے ساتھ تنازعہ کے بعد فائیو سٹار رینک پر ترقی پائے ہیں، یہ اعزاز حاصل کرنے والے فیلڈ مارشل ایوب خان کے بعد صرف دوسرے افسر ہیں۔
- عہدے سے ہٹانا: کسی پانچ ستارہ افسر کو ہٹانے کے لیے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہو گی، جبکہ اس کے مقابلے میں منتخب حکومت صرف سادہ اکثریت سے بھی اقتدار کھو سکتی ہے۔
ناقدین نے اس پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے “جمہوریت کی بقا کے لیے خطرناک” قرار دیا ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والی آئینی وکیل ردا حسین نے الجزیرہ کو بتایا کہ یہ اقدام ایک “غیر منتخب فوجی افسر کو وہ تحفظات اور اختیارات دیتا ہے جو ملک کے کسی بھی جمہوری طور پر منتخب رہنما کو حاصل نہیں ہیں۔”
2. عدلیہ میں تبدیلیاں اور نیا عدالت کا قیام (Judicial Reforms)
ترمیم کا دوسرا حصہ عدلیہ کی ساخت میں تبدیلی لاتا ہے، جس کا مرکزی نقطہ فیڈرل کانسٹیٹیوشنل کورٹ (FCC) کا قیام ہے۔
- فیڈرل کانسٹیٹیوشنل کورٹ: یہ نئی عدالت ایک مستقل ادارے کے طور پر قائم ہو گی، جس کی سربراہی اپنا چیف جسٹس کرے گا۔ اس کا بنیادی کام وفاقی اور صوبائی حکومتوں یا مختلف صوبائی حکومتوں کے درمیان تنازعات کا فیصلہ کرنا ہو گا۔
- سپریم کورٹ کا محدود کردار: قانونی ماہرین کے مطابق، اس ترمیم کے نتیجے میں سپریم کورٹ محض ایک “اپیلٹ کورٹ” (Appellate Court) بن کر رہ جائے گی اور اس کے آئینی اختیارات کو محدود کر دیا جائے گا۔ * ججوں کی منتقلی: مجوزہ تبدیلیوں سے صدر کو ججز کی رضامندی کے بغیر انہیں ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ منتقل کرنے کا اختیار مل جائے گا۔ اگر کوئی جج منتقلی سے انکار کرتا ہے، تو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (JCP) کے سامنے وجوہات پیش کرنی ہوں گی، اور اگر JCP وجوہات کو غیر تسلی بخش سمجھتا ہے، تو جج کو ریٹائر ہونا پڑے گا۔
ان تبدیلیوں پر سپریم کورٹ کے سینیئر ججوں کی جانب سے بھی تنقید سامنے آئی ہے۔ سپریم کورٹ کے دوسرے سینیئر ترین جج منصور علی شاہ نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو ایک کھلے خط میں لکھا کہ FCC “حقیقی اصلاحی ایجنڈا” کی نمائندگی نہیں کرتی بلکہ یہ “عدلیہ کو کمزور اور کنٹرول کرنے کا ایک سیاسی حربہ” ہے۔
حکومت کا مؤقف اور تنقید
حکومت نے ان تبدیلیوں کو آئینی درخواستوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کو کم کرنے اور مسلح افواج سے متعلق طریقہ کار اور انتظامی ڈھانچے کو بہتر بنانے سے منسوب کیا ہے۔ تاہم، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) سمیت ناقدین نے اس ترمیم کو پارلیمنٹ میں “جلد بازی” میں پیش کرنے پر سوالات اٹھائے ہیں اور اسے جمہوری اداروں کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔
انٹرنیشنل کمیشن آف ججسٹس (ICJ) کی قانونی مشیر ریما عمر نے کہا کہ یہ “27ویں آئینی ترمیم آئینی ہتھیار ڈالنا” ہے، کیونکہ اس سے ایگزیکٹو کو ان ججوں کی تقرری کا اختیار مل جائے گا جن کا واحد دائرہ اختیار ایگزیکٹو کو ہی جوابدہ ٹھہرانا ہے۔
کلیدی الفاظ (Keywords):
پاکستان، 27ویں آئینی ترمیم، چیف آف ڈیفنس فورسز (CDF)، فوجی استثنیٰ، تاحیات استثنیٰ، فیڈرل کانسٹیٹیوشنل کورٹ (FCC)، عدالتی اصلاحات، سپریم کورٹ، آرٹیکل 243، قومی اسمبلی، سینیٹ۔
