واشنگٹن / بحیرہ عرب: امریکی بحریہ کی خصوصی فورسز نے بین الاقوامی پانیوں میں سفر کرنے والے ایک مال بردار بحری جہاز پر دھاوا بول کر اسے اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ یہ جہاز چین سے ایران کی طرف جا رہا تھا اور حکام کو شبہ تھا کہ یہ جہاز اقوام متحدہ کی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حساس فوجی سامان یا ہتھیاروں کے اجزاء لے جا رہا تھا۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق، یہ واقعہ جمعہ کی شام بحیرہ عرب یا خلیج عمان کے قریبی بین الاقوامی پانیوں میں پیش آیا۔ امریکی کمانڈوز، جن میں ممکنہ طور پر نیوی سیلز شامل تھے، نے ہیلی کاپٹروں اور تیز رفتار کشتیوں کے ذریعے جہاز پر چڑھائی کی اور چند ہی منٹوں میں جہاز کا کنٹرول سنبھال لیا۔
واقعہ کی تفصیلات
مال بردار جہاز، جس کی شناخت بعض ذرائع نے ایم وی ‘وِلا’ (MV Willa) کے نام سے کی ہے، تجارتی راستے پر تھا جب اسے روکا گیا۔ امریکی حکام کا مؤقف ہے کہ یہ کارروائی خفیہ معلومات کی بنیاد پر کی گئی جس میں بتایا گیا تھا کہ یہ جہاز ایران کو وہ مواد پہنچانے کی کوشش کر رہا تھا جو جوہری اور میزائل پروگراموں سے متعلق امریکی اور بین الاقوامی پابندیوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔
کارروائی کے دوران کسی قسم کی شدید مزاحمت کی اطلاع نہیں ملی۔ جہاز کے عملے کو زیر حراست لے لیا گیا ہے جبکہ امریکی حکام نے فوری طور پر جہاز کی مکمل تلاشی کا عمل شروع کر دیا ہے تاکہ ممنوعہ سامان کی نوعیت اور مقدار کا تعین کیا جا سکے۔
واشنگٹن کا مؤقف
پینٹاگون کے ایک ترجمان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس کارروائی کی تصدیق کی اور کہا کہ امریکہ خطے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بین الاقوامی پابندیوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے پر عزم ہے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ ایسی کارروائیاں ان غیر قانونی کوششوں کو روکنے کے لیے ضروری ہیں جو ایران کو عدم استحکام پیدا کرنے والے مواد کی فراہمی میں ملوث ہیں۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ جہاز کو اب مزید تلاشی اور تفتیش کے لیے ایک محفوظ بندرگاہ کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔ تلاشی کے نتائج کی بنیاد پر جہاز اور اس پر موجود سامان سے متعلق حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
علاقائی کشیدگی میں اضافہ
چین سے ایران جانے والے ایک کمرشل جہاز پر امریکی فورسز کے اس طرح کے کھلے عام دھاوے نے خطے میں کشیدگی کی سطح کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ایران نے اس کارروائی کو بین الاقوامی سمندری قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے، اور مطالبہ کیا ہے کہ جہاز اور عملے کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ جبکہ چین نے بھی اس واقعے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور اپنے تجارتی مفادات کے تحفظ پر زور دیا ہے۔
اس واقعے سے واضح ہوتا ہے کہ امریکہ خطے میں پابندیوں کے نفاذ کے لیے سخت گیر موقف اختیار کر رہا ہے اور ایران کی طرف جانے والی ممنوعہ رسد کو روکنے کے لیے فوجی قوت استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔
