انڈونیشیا کے جزیرے جاوا میں، صفراوادی غار ایک غیر معمولی منظر کا مرکز بنا جب زائرین غار کے اندر واقع ایک مسجد میں جمع ہوئے۔ یہ واقعہ، اگرچہ کچھ لوگوں کے لیے حیران کن ہو سکتا ہے، لیکن یونیورسٹی آف انڈونیشیا کی مذہبی اور ثقافتی بشریات کی ماہر امانہ نورش کے مطابق، انڈونیشیا کی ثقافتی اور مذہبی روایات کے گہرے تناظر میں پوری طرح مطابقت رکھتا ہے۔
نورش کے مطابق، صفراوادی غار میں جو کچھ ہوا وہ کوئی انوکھی یا عجیب بات نہیں ہے۔ انڈونیشیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کے لوگوں کے آباؤ اجداد کا تصوف اور صوفیانہ خیالات سے ایک دیرینہ تعلق رہا ہے۔ “دی گریٹ ڈکشنری آف انڈونیشیا” بھی تصوف کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے اور اس بات پر زور دیتی ہے کہ تصوف تقریباً تمام مذاہب میں موجود ہے اور اس کا بنیادی مقصد لوگوں کو خدا سے قربت کا احساس دلانا ہے۔
نورش مزید کہتی ہیں کہ انڈونیشیا میں مختلف مذاہب کی آمد سے پہلے، یہ جزیرہ نما مقامی افسانوں اور لوک کہانیوں سے بھرا ہوا تھا۔ لوگ ان کہانیوں پر یقین رکھتے تھے اور رفتہ رفتہ ان کو سچ ماننے لگے تھے۔ یہ تاریخی پس منظر انڈونیشیا میں صوفیانہ خیالات کی مضبوط جڑوں کو سمجھنے میں مدد کرتا ہے۔
نورش اس بات پر بھی روشنی ڈالتی ہیں کہ صفراوادی غار جیسے مقامات کچھ خاص طبقات کے لیے کیوں کشش رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق، “نچلے اور نیم متوسط طبقے” کے وہ افراد جن کے پاس حج جیسے مہنگے مذہبی سفر کی استطاعت نہیں ہوتی، پامیجہاں جیسے مقامات ان کے لیے مذہبی سیاحت کے پرکشش متبادل بن جاتے ہیں۔ حج پر جانے کے لیے ایک انڈونیشیائی شہری کو تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ انڈونیشین روپے یا 3300 امریکی ڈالر خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ یہ رقم بہت سے لوگوں کے لیے ایک ناقابلِ برداشت بوجھ ہے۔ ایسے میں، کم خرچ والے مذہبی مقامات ان کے لیے عقیدت اور روحانی سکون حاصل کرنے کا ایک راستہ فراہم کرتے ہیں۔
صفراوادی غار کے واقعے کو صحیح یا غلط، اچھے یا برے کے پیمانے پر جانچنا مناسب نہیں ہوگا۔ نورش کا کہنا ہے کہ “صفراوادی غار میں لوگوں نے جو کچھ کیا وہ ان کے جذبات کے اظہار کی ایک شکل تھی۔” یہ واقعہ انڈونیشیائی لوگوں کی مذہبی اور ثقافتی شناخت، ان کی تاریخی روایات اور معاشی حالات کے پیچیدہ تعامل کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ عقیدت اور روحانیت کے اظہار کے مختلف طریقے ہو سکتے ہیں، اور ان طریقوں کو سمجھنے کے لیے ہمیں ان کے ثقافتی اور سماجی پس منظر کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔