google-site-verification=aZNfMycu8K7oF6lNUgjpjoa8ZAyM0qfHriwatL8flQ4
image_search_1746466858782

صحافی: یاسین ظہور

خیبر پختونخواہ (Khyber Pakhtunkhwa) پاکستان کا ایک اہم صوبہ ہے جس کا تعلیمی نظام مختلف چیلنجز اور ترقیاتی اقدامات کے حوالے سے متنازع اور متحرک رہا ہے۔ یہاں تعلیمی نظام کی موجودہ صورتحال کا مختصر خلاصہ پیش کیا جارہاہے۔
خیبر پختونخواہ میں سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی ادارے موجود ہیں، جن میں پرائمری، مڈل، اور ہائی اسکول شامل ہیں۔
سرکاری اسکولوں کی تعداد کافی ہے،اور ان پر اربوں روپے خرچ کئیے جارہے ہیں۔مگر ان کی معیارِ تعلیم اور سہولیات دن بدن خراب سے خراب تر اور زوال کی طرف جارہے ہیں۔
نجی تعلیمی اداروں کی تعداد بھی درجنوں ہیں، اور سرکاری اسکولوں کی نسبت تعداد دگنی سے بھی زیادہ ہیں۔لیکن بچوں کی مستقبل کو بگاڑنے میں انہی اداروں کا خاص کردار ہے۔
تعلیمی معیار اور رسائی بھی ایک سنگین مسلہ ہے۔
تعلیم کے شعبے میں جہاں بہتری آئی ہے، خاص طور پر بنیادی تعلیم کی رسائی میں بہت بڑا اضافہ اور تبدیلی آئی ہے۔وہاں خیبر پختونخواہ کا تعلیمی نظام روز بروز خاستہ حال ہوتا جارہاہے۔
پسماندہ اور دور دراز علاقوں سمیت جدید اور ترقیاتی شہروں میں بھی بنیادی سہولیات کی کمی، اساتذہ کی کمی،نااہل، غیر تربیت یافتہ اور ان پڑھ نمائندوں کی بطور اساتذہ بھرتی اور تعلیم کی صحیح فروغ کے مسائل ابھی بھی موجود ہیں۔جن کے لیے قائم ادارے مکمل طور پر ناکام نظر آرہے ہیں۔کیونکہ متعلقہ قائم کردہ ادارے اپنے مسائل حل کرنے کے لیے علاقائی، سیاسی، اور دوسرے حسب ضرورت لوگوں کے ذریعے مسائل کا حل نکالنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔جس کا ثبوت حال ہی میں ایک سرکاری گرلز ہائی اسکول کے مسلے کے دوران پیش آیا۔اورلڑکیوں کی تعلیم کے لیے حکومت اور مختلف تنظیمیں کا قیام۔ان کے لیے کام کرنا،اور تعلیم نسواء کو فروغ دینے کے دعوں کے باوجود اب بھی ثقافتی اور سماجی روایات اور تعلیمی نمائندگی کی ناکامی،اور قائم کردہ تعلیمی اداروں کی غفلت،خدغرضی اور نااہلی کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔
اگر تعلیمی نتائج کی بات کی جائے تو اس میں بہتری کے لیے مختلف پروگرامز اور اصلاحات کی جا رہی ہیں، مگر ابھی بھی معیارِ تعلیم کو بلند کرنے کی ضرورت ہے۔
سوشل میڈیاء پر معیارِ تعلیم اور نصاب کی اصلاحات جاری ہیں۔لیکن حقیقت اس کے برعکس ہیں۔
اگر نصاب کی بات کی جائے۔تو نصاب میں تجدید اور جدید تعلیم کے تقاضوں کے مطابق تبدیلی کی ضرورت ہے۔جس کے لیے پرانے اور ناہل مافیاء سے چٹکارا ضروری ہے۔
استادوں کی تربیت اور معیارِ تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے ورکشاپس اور تربیتی پروگرامز جاری ہیں، مگر اس شعبے میں بھی بہتری ضرورت ہے کیونکہ تربیت فائدہ مند تب ہوتی ہے۔جب وراثت اور روایتی برتیوں سے ہٹ کر میرٹ کو ترجیح دی جائے۔کیونکہ ڈیجیٹل اور آن لائن تعلیم کی اہمیت جب covid-19 کے دوران سامنے آئی، اور کچھ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں نے آن لائن تعلیم کے ذریعے رسائی کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔تو روایتی بھرتیوں نے اسکی دجیاں اڑادی۔اور اسکے ساتھ انٹرنیٹ کی دستیابی اور ٹیکنالوجی کی کمی کے باعث بھی بہت سے طلبہ تعلیم سے محرومی کا شکار بنیں۔
تعلیمی شعبے کو بہتر بنانے کے لیے
تعلیم کے شعبے میں وسائل کی کمی
پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں سہولیات کی کمی،استادوں کی تربیت اور معیار،سماجی اور ثقافتی رکاوٹیں، خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم میں نصاب میں جدیدیت اور اصلاحات کی ضرورت،انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کی عدم دستیابی بہت بڑے رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
تعلیمی معیار بہتر بنانے میں حکومت کا اہم کردار ہوتاہے۔جہاں
حکومتی اقدامات اور اصلاحات
تعلیم کے شعبے میں بہتری کے لیے مختلف پروگرامز شروع کیے گئے ہیں، جیسے کہ “پختونخوا ہائی پرفارمنس اسکولز” اور “پختونخوا ایجوکیشن فاؤنڈیشن”۔
انڈرپروویڈ علاقوں میں اسکولوں کی تعمیر اور سہولیات میں اضافہ۔
لڑکیوں کی تعلیم کے لیے خصوصی پروگرامز اور مہمات تو دوسری جانب غیرقانونی بھرتیاں، روایتی اور غیرمعیاری بھرتیاں ان اقدامات کو کمزور اور تعلیمی نظام کو تباہی کی طرف لے جانے میں سرفہرست ہیں۔

صفراوادی‘: انڈونیشیا کا وہ ’مقدس غار جہاں مکہ تک پہنچانے والی خفیہ سرنگ‘ موجود ہے جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے کیا دیکھا؟ سی ڈی اے ہسپتال میں لفٹ خراب ٹریفک پولیس جدید طریقہ واردات