
قبائلی عمائدین نے 77 سال سے جاری محرومیوں پر تشویش کا اظہار کیا، گورنر خیبرپختونخوا نے فنڈز کی عدم دستیابی کا معاملہ اٹھایا
اسلام آباد (نیوز ٹکرز): 24 جولائی 2024 کو پارلیمنٹ ہاؤس میں ایک اہم ملاقات ہوئی جس میں چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی سے گورنر خیبرپختونخوا، فیصل کریم کنڈی کی قیادت میں 90 رکنی قبائلی جرگے کے ممبران نے تفصیلی بات چیت کی۔ اس ملاقات کا بنیادی مقصد سابقہ ضم شدہ فاٹا کے اضلاع کو درپیش دیرینہ مسائل، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور انضمام سے متعلقہ امور پر اعلیٰ سطح پر آگاہی فراہم کرنا تھا۔
قبائلی جرگہ میں ڈاکٹر عالم زیب مہند، ملک خان مرجان وزیر، بسم اللہ خان افریدی سمیت دیگر قبائلی مشران اور عمائدین شامل تھے۔ انہوں نے چیئرمین سینیٹ کو 77 سال گزرنے کے باوجود قبائلی علاقوں کو نظر انداز کیے جانے پر اپنے شدید تحفظات سے آگاہ کیا۔
قبائلی عمائدین کے تحفظات اور مطالبات
جرگے کے عمائدین نے اپنی گفتگو میں اس بات پر زور دیا کہ قیام پاکستان کے 77 سال بعد بھی قبائلی علاقوں کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ “شہید ذوالفقار علی بھٹو نے خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقوں کے لیے بہت کام کیا تھا، موجودہ قیادت بھی اس مشن پر عمل کرے”۔ یہ مطالبہ کیا گیا کہ قبائلی عوام کے بنیادی حقوق اور ترقیاتی ضروریات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔
ایک انتہائی تشویشناک نکتہ یہ بھی اٹھایا گیا کہ “50 لاکھ قبائلی عمائدین آج بھی آئی ڈی پیز (اندرونی طور پر بے گھر افراد) کی حیثیت سے زندگی بسر کر رہے ہیں، اور ان کے مسائل تاحال حل نہیں کیے گئے”۔ یہ اعداد و شمار فاٹا میں جاری آپریشنز اور انضمام کے بعد پیدا ہونے والی سماجی و اقتصادی مشکلات کی عکاسی کرتے ہیں، جہاں لاکھوں افراد اب بھی اپنے گھروں کو واپس نہیں جا سکے یا واپس جانے کے بعد بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
چیئرمین سینیٹ کی یقین دہانی اور عزم
سید یوسف رضا گیلانی نے قبائلی جرگے کے عمائدین کے تمام تحفظات کو غور سے سنا اور انہیں مکمل یقین دہانی کرائی کہ “قبائلی عوام کو کسی بھی صورت تنہا نہیں چھوڑا جائے گا”۔ انہوں نے ایوان بالا کے کردار کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ “ایوان بالا سابقہ فاٹا کی موثر اور بھرپور آواز اور ان کے حقوق کا محافظ ہے”۔
چیئرمین سینیٹ نے گورنر خیبرپختونخوا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ “انہوں نے قبائلی عوام کے مسائل کو مؤثر انداز میں اعلیٰ سطح تک پہنچایا”۔ انہوں نے قبائلی جرگہ اور گورنر خیبرپختونخوا کو قبائلی عوام کے مسائل کو موثر انداز میں حل کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی۔ ان کی یقین دہانی سے قبائلی عمائدین میں امید کی ایک نئی کرن پیدا ہوئی ہے۔
گورنر خیبرپختونخوا کے اہم انکشافات
گورنر خیبرپختونخوا، فیصل کریم کنڈی نے ملاقات میں سابق فاٹا کے انضمام کے بعد درپیش مالی اور انتظامی چیلنجز پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے ایک انتہائی اہم نکتہ اٹھایا کہ “این ایف سی ایوارڈ سے 3 فیصد حصہ سابق فاٹا کے لیے مختص کرنے کا جو وعدہ کیا گیا تھا، وہ تاحال مکمل طور پر نافذ نہیں کیا گیا”۔ یہ ایک ایسا وعدہ تھا جو فاٹا انضمام کے وقت کیا گیا تھا تاکہ ان علاقوں کی پسماندگی دور کی جا سکے، لیکن اس کی عدم تکمیل نے مسائل کو مزید بڑھا دیا ہے۔
فیصل کریم کنڈی نے مزید بتایا کہ “وفاقی حکومت کی جانب سے جو فنڈز مختص کیے جاتے ہیں، وہ بھی اصل وعدے سے کم ہوتے ہیں”۔ اس کے علاوہ، انہوں نے فنڈز کے شفاف اور مؤثر استعمال پر بھی سوالات اٹھائے۔ ان کا کہنا تھا کہ “سابق فاٹا کے فنڈز صوبائی نظام میں منتقل ہونے سے شفافیت اور مؤثر استعمال پر سوالات اٹھتے ہیں”۔ انہوں نے یہ بھی افسوس کا اظہار کیا کہ “یہ معاملہ وفاق اور صوبوں کے درمیان ایک فٹبال بن چکا ہے”، جس کی وجہ سے قبائلی عوام کے مسائل حل طلب ہیں۔
گورنر نے زور دیا کہ “موجودہ نظام کے تحت قبائلی علاقوں اور عوام کا تحفظ ممکن نہیں ہو پا رہا”۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ “موجودہ نظام کو بہتر بنا کر ضم شدہ اضلاع کے عوام کے جائز تحفظات اور شکایات کا ازالہ ہونا چاہیے”۔
انضمام کے بعد کی صورتحال اور آئینی حقوق کی عدم فراہمی
فیصل کریم کنڈی نے فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد صوبے کے رقبے اور آبادی میں واضح اضافے کی جانب بھی اشارہ کیا۔ انہوں نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ “ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے مطابق انضمام شدہ علاقوں کی آبادی کا قومی آبادی میں تناسب 13 فیصد سے بڑھ کر 17.1 فیصد ہو چکا ہے”۔ اس کے باوجود، انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ “تمام جغرافیائی اور معاشی تبدیلیوں کے باوجود سابق فاٹا کے عوام کو این ایف سی کے تحت ان کا جائز اور آئینی حق تاحال فراہم نہیں کیا گیا”۔
گورنر نے مزید بتایا کہ “قبائلی علاقوں میں غربت کی شرح بھی تشویشناک حد تک بڑھ گئی ہے”۔ انہوں نے واضح کیا کہ فنڈز کی عدم دستیابی اور بروقت منصوبوں کی عدم تکمیل کی وجہ سے “قبائلی علاقوں میں ترقیاتی عمل سست روی کا شکار ہے اور عوام کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں”۔
آخر میں، فیصل کریم کنڈی نے وفاقی حکومت سے پرزور مطالبہ کیا کہ “سابق فاٹا کے عوام کو قومی مالیاتی کمیشن کے فریم ورک کے تحت ان کا مکمل اور آئینی حق دیا جائے” تاکہ ان علاقوں میں حقیقی ترقی کا آغاز ہو سکے اور وہاں کے عوام کی محرومیاں دور ہو سکیں۔
یہ ملاقات قبائلی علاقوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک مثبت قدم کی حیثیت رکھتی ہے، اور توقع ہے کہ چیئرمین سینیٹ کی یقین دہانیوں اور گورنر کے اٹھائے گئے نکات کی روشنی میں حکومت اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرے گی۔