google-site-verification=aZNfMycu8K7oF6lNUgjpjoa8ZAyM0qfHriwatL8flQ4
First day larger moon

بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ پہلی کا چاند بڑا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دوسری تاریخ کا تھا لہذا حکومت کا اعلان درست نہیں تھا:
پہلی بات یہ ہے کہ حکومت کا اعلان حقیقتاً غلط بھی ہو تب بھی شریعت کا یہی حکم ہے کہ لوگوں کا روزہ تب ہو گا جب حکمران اعلان کرے۔ (شامی 320/4) اگر حکمران غلط کر رہا ہے تو اس کا وبال اس پر ہے۔
دوسری بات یہ کہ یہی بات نبی ﷺ اورصحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں بھی لوگ کیا کرتا تھا۔ لیکن نبی ﷺ اورصحابہ رضی اللہ عنہم ایسا کہنے سے لوگوں کو منع فرمایا کرتے تھے کہ “بڑا اور چھوٹا چھوڑ دو اگر پہلی بار دیکھا ہے تو بس پہلی کا ہے۔” حتی کہ ایک دفعہ نبی ﷺ پہلے کی چاند کو بڑا کہنے کو بدترین دور اور قیامت کی نشانی قرار دیا۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا قیامت کی قریبی نشانیوں میں سے ایک چاند پھل جانا ہے اور وہ یہ کہ پہلے تاریخ کے چاند کو یہ کہا جائے گا کہ یہ دوسری تاریخ کا چاند ہے کیونکہ بڑا ہے۔ (المعجم الصغیر 115/2)
ایک اور روایت ہے حضرت ابو بختر فرماتے ہیں ہم کوفے سے عمرے کے لیے گیے۔ ہم طائف اور مکہ کے درمیان بطن نخلہ کے مقام پر تھے کہ چاند نظر آیا۔ لوگ چاند دیکھنے کے لیے جمع ہوئے۔ بعض نے کہا یہ تیسرے دن کا ہے۔ کسی نے کہا دوسرے دن کا ہے۔ پھر ہم ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ملے اور انھیں چاند بڑا ہونے اور لوگوں کی راے کا ذکر کیا۔ ابن عباس نے پوچھا (بڑا چھوٹا چھوڑو) تم لوگوں نے کس رات کو دیکھا تھا؟ تو لوگوں نے کہا فلاں رات کو، تو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کا انحصار پہلے دیکھنے پر کیا ہے۔ لہذا جس رات آپ لوگوں نے پہلی بار دیکھا ہے اسی سے شمار کرو۔ (مشکوٰۃ باب رویۃ الھلال، حدیث 1884)
تیسری بات یہ ہے کہ بڑا ہونے کی اصل وجہ طبعی قوانین ہوتے ہیں۔ مثلاً افقی زاویہ 10 درجے سے زیادہ سورج سے دور ہونا، افقی بلندی، غروب کے وقت چاند کا افق پر 8 درجے سے زیادہ بلندی پر ہونا، عمر 20 گھنٹے سے زیادہ ہونا۔ اس طرح موسم وغیرہ کی بنیاد پر بعض چاند بہت بڑا ہوتا ہے۔
چوتھی بات یہ ہے کہ بعض اوقات چاند ہوتا ہے لیکن زاویے یا عمر کی کمی وغیرہ کے وجہ سے نظر نہیں آ سکتا۔ ظاہر ہے کہ آئندہ رات کوبڑا ہی ہو گا۔
پانچویں بات یہ ہے کہ شریعت نے پہلی تاریخ شرط اور علت روزے کے لیےنہیں قرار دیا ہے بلکہ انسانی آنکھ سے نظر آنا قرار دیا ہے۔ اس وجہ سے کلینڈر یا نیو مون سے آغاز شرعاً درست نہیں ہے۔ اس لیے حدیث میں ہے کہ فَاِن غم یا غموا یعنی اگر گرد غبار یا بادل کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے تو پھر پہلے مہینے کے 30 دن پورے کرو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چاند تو ہو گا مگر گرد و غبار یا بادل کی وجہ سے نظر نہیں آئے گا۔ ظاہر ہے اگلے دن دوسرے کا ہو گا اور بڑا نظر آئے گا لیکن شرعاً پہلی کا شمار ہوگا کیونکہ گرد و غبار یا بادل کی وجہ سے نظر نہیں آیا تھا۔ اور حساب اور شرعی حکم تب ٹھہر تاہے جب نظر آے۔
لہذا چھوٹا بڑا ہونے کی وجہ سے شرعی حکم پر اثر نہیں پڑتا، نہ شرعا ایسا کہنا اور اس پر کمیٹی کی شرعی حیثیت کم کرنا یا مشکوک کرنا درست ہے۔
حفیظ صاحب کی مزید وضاحت:
جب سورج کی روشنی چاند سے ٹکرا کر ہماری آنکھوں پر پڑتی ہے تو ہمیں چاند نظر آتا ہے۔ رمضان کے آغاز کے لیے چاند کو آنکھ سے دیکھنا ضروری ہے، اس کے لیے ہمیں جتنی روشنی چاہیے اس کیلیے چاند، سورج اور زمین کے بیچ کم ز کم ساڑھے دس ڈگری کا زاویہ ہونا چاہیے۔
اب چونکہ چاند کا مدار بالکل گول نہیں بلکہ بیضوی ہے اس لیے اس زاویے کا مطلب 17سے لے کر چوبیس گھنٹے تک کا چاند ہے، پہلے سے چودھویں دن تک چاند کی عمر ہر روز چوبیس گھنٹے بڑھتی جاتی ہے (چودھویں دن پر ابن انشا نظمیں بھی لکھتے ہیں)۔

اب اگر پہلے دن چاند 16 گھنٹے کا ہو تو ہمیں آنکھ سے نظر نہیں آے گا لیکن یہی چاند اگلے روز 16+24 یعنی 40گھنٹے کا ہو گا اور اتنا بڑا ہو گا کہ ہمیں لگے گا کہ ہم نے ایک روزہ کھا لیا ہے، یہ درست نہیں ہے، پہلی کے چاند کا باریک ہونا بالکل ضروری نہیں ہے ، پہلی کا چاند 17گھنٹے کا بھی ہو سکتا ہے اور 40 گھنٹے کا بھی، دونوں کے سائز میں بہت فرق ہے پر دونوں پہلی کے چاند ہی کہلائیں گے۔

☛⃟⚉دلچسپ و عجیب معلومات ⚉⃟☚

سی ڈی اے ہسپتال میں لفٹ خراب ٹریفک پولیس جدید طریقہ واردات