google-site-verification=aZNfMycu8K7oF6lNUgjpjoa8ZAyM0qfHriwatL8flQ4
Importance of mother language

پشاور، 25 اکتوبر 2025ء

دوربین، آکسفورڈ یونیورسٹی اور انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (آئی ای آر)، یونیورسٹی آف پشاور کے اشتراک سے “تعلیم میں زبان کا کردار” کے موضوع پر ایک پالیسی ڈائیلاگ منعقد کیا گیا۔ اس مکالمے کا مقصد یہ جاننا تھا کہ کس طرح مختلف زبانوں کا مثبت استعمال بچوں کی سیکھنے کی صلاحیت کو بہتر بنا سکتا ہے اور تعلیم کو سب کے لیے قابلِ رسائی بنایا جا سکتا ہے۔

یہ مکالمہ ڈی اے آر ای-آر سی (DARE-RC) نامی تحقیقی منصوبے کا حصہ تھا، جس کی قیادت ڈاکٹر فوزیہ شمیم (دوربین، کراچی) اور ڈاکٹر عالیہ خالد (آکسفورڈ یونیورسٹی) کر رہی ہیں۔ اس منصوبے کو برطانوی حکومت کے فارن، کامن ویلتھ اینڈ ڈویلپمنٹ آفس (FCDO) کی مالی مدد حاصل ہے اور آکسفورڈ پالیسی مینجمنٹ (OPM) اسے عملی طور پر نافذ کر رہی ہے۔

تقریب کا آغاز آئی ای آر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حافظ محمد انعام اللہ اور دوربین کی سی ای او محترمہ سلمیٰ عالم نے کیا۔ مقررین نے زور دیا کہ بچوں کی گھریلو زبان اور اسکول کی زبان میں فرق کم کرنا بہت ضروری ہے تاکہ بچے بہتر طور پر سیکھ سکیں۔

ڈاکٹر فوزیہ شمیم نے کہا:

“اساتذہ عموماً بچوں سے ان کی مادری زبان میں بات کرتے ہیں، مگر پالیسی سطح پر اس عمل کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ اگر ہم بچوں کی اپنی زبانوں کو تعلیم کا حصہ بنائیں تو وہ زیادہ پُراعتماد اور بہتر سیکھنے والے بن سکتے ہیں۔”

ڈاکٹر عالیہ خالد (آکسفورڈ یونیورسٹی) نے کہا:

“زبان صرف اسکول میں نہیں بلکہ گھر اور کمیونٹی میں بھی سیکھنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ ہمیں تعلیم کے نظام میں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا۔”

سیکرٹری ابتدائی و ثانوی تعلیم خیبر پختونخوا جناب محمد خالد خان نے کہا کہ تعلیمی پالیسیوں میں لسانی تنوع کو شامل کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ قومی اور علاقائی زبانوں کے درمیان توازن قائم کیا جائے اور اس مقصد کے لیے حکومت تحقیقی اداروں کے ساتھ تعاون کرے گی۔

سابق ایم پی اے ناصر باز خان نے پشتو سمیت تمام علاقائی زبانوں کے احترام پر زور دیا اور کہا کہ ان زبانوں کو آئینی سطح پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔

پینل مباحثے میں ڈاکٹر گلزار جلال، جناب فخرالدین اخونزدہ اور ڈاکٹر سہیل خان نے بھی شرکت کی اور کہا کہ تعلیم میں مادری زبانوں کو اہم مقام دینا بچوں کی سیکھنے کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے بہت ضروری ہے۔

یہ تقریب مونال، پشاور میں منعقد ہوئی، جہاں خیبر پختونخوا اور سندھ میں جاری تحقیق کے نتائج بھی پیش کیے گئے۔ ان نتائج کے مطابق، تعلیم میں بہتری کے لیے گھریلو زبانوں کا استعمال، اردو اور انگریزی کا بتدریج تعارف، اور پالیسی سطح پر ہم آہنگی بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔

تقریب کے اختتام پر تمام شرکاء نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ زبان پر مبنی جامع اور مساوی تعلیم کے لیے مل کر کام کریں گے

About The Author

صفراوادی‘: انڈونیشیا کا وہ ’مقدس غار جہاں مکہ تک پہنچانے والی خفیہ سرنگ‘ موجود ہے جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے کیا دیکھا؟ سی ڈی اے ہسپتال میں لفٹ خراب ٹریفک پولیس جدید طریقہ واردات